پاکستانی ایٹمی پلانٹس کو میزائل یا طیارے سے نشانہ نہیں بنایا جا سکتا: چیئرمین اٹامک انرجی کمشن
اسلام آباد(ثناء نیوز)پاکستان اٹامک انرجی کمشن کے چیئرمین ڈاکٹر انصر پرویز نے کہا ہے کہ پاکستان نیوکلیئر پاور پلانٹس بنا سکتا ہے مارکیٹ میں تعمیری لاگت سے سستے دستیاب ہونے پر چین سے ان پلانٹس کے حصول کیلئے معاہدے کئے گئے ہیں چین پلانٹس کی مدت مکمل ہونے تک انہیں ایندھن کی فراہمی کا ذمہ دار ہے چین کو معلوم ہے کہ پاکستان یہ پلانٹس چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی لیے ہمارے ساتھ معاہدے کئے ورنہ وہ ہمارے بجائے امیر ممالک سے اس قسم کے معاہدے کر سکتا تھا پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم عالمی معیار کے مطابق انتہائی موثر اور جامع ہے اتنا محفوظ سسٹم ہے کہ ادارے کا بڑے سے بڑا عہدیدار بھی اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتا اور نہ کوئی گڑ بڑ کر سکتا ہے نیوکلیئر پاور پلانٹس کی حفاظت کا بھی موثر نظام ہے اس کے حساس حصوں کو میزائل سے بھی نشانہ نہیں بنایا جاسکتا اسی طرح نیوکلیئر پاور پلانٹس پر حفاظتی حصار کے باعث مسافر جہاز کو بھی ان سے نہیں ٹکرایا جاسکتا کراچی کے دونوں نئے پاور پلانٹس ان ہی مقامات پر لگائے جائیں گے جن کا انتخاب کیا گیا ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے کمشن کے دیگر ماہرین کے ہمراہ پاکستان کی ایٹمی قوت پر پہلی میڈیا ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز کے بانی سربراہ ڈاکٹر ایمان اللہ نے کہا ہے خدانخواستہ کسی ناگہانی صورتحال میں ہمارا کوئی سسٹم ختم بھی ہو جائے تو پاکستان میں ایسی تربیت یافتہ افرادی قوت موجود ہے جو ایٹم بم سمیت تمام ٹیکنالوجی دوبارہ تیار کر سکتی ہے پاکستان میں ایسا ذہن موجود ہے کہ ہم سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے حوالے سے کچھ بھی کر سکتے ہیں مسلم امہ کی واحد ایٹمی طاقت ہیں انہوں نے کہا کہ نیو کلیئر پاور پلانٹس سے پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر میں یہ پلانٹس کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ پلانٹس ایٹمی ہتھیار نہیں بلکہ توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے پلانٹس ہیں امریکہ میں سو کے قریب اس قسم کے پلانٹس کام کر رہے ہیں پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ترقی و خوشحالی کے وسیع امکانات موجود ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پر امن مقاصد کیلئے ہے ہمارے کبھی جارحانہ عزائم نہیں رہے 1972ء میں بھارت کی جانب سے اس صلاحیت کے حصول پر پاکستان نے اپنے دفاع کیلئے اس کام کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیوکلیئر سپلائی گروپ کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض ممالک نے بھارت کے ساتھ ایٹمی مواد کی تجارت شروع کی امریکہ نے بھی امتیاز برتتے ہوئے بھارت کے ساتھ اس قسم کا معاہدہ کیا اصولاً یہ معاہدہ پاکستان کے ساتھ بھی ہونا چاہئے تھا تاہم قوم کو یقین دہانی کرا سکتے ہیں کہ سب کچھ ہمارے بس میں ہے۔ انہوں نے کہا وزیراعظم کی ہدایت پر مزید نیوکلیئر پاور پلانٹس کیلئے چھ مختلف سائیٹس دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں بجلی کے ایک یونٹ کی کمی پر قومی معیشت کو 38سینٹ کا نقصان ہوتا ہے اور اگر ہمیں توانائی کہیں سے 25 سینٹ میں بھی ملے تو ہمیں اسے ضرور خریدنا چاہیے ایٹمی پاور پلانٹس سے مجموعی طور پر بجلی کی سات روپے پیداواری لاگت ہے ورکشاپ سے دیگر سائنس دانوں نے بھی خطاب کیا۔