طالبان کی اپنی شناخت ہے‘ جانے کیوں انہوں نے کمیٹی سے باہر کے نمائندے لئے : فضل الرحمن
فیصل آباد (نمائندہ خصوصی) جمعیت علماء اسلام (ف)کے سر براہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ طالبان سے امن مذاکرات ملکی بقاء اور انسانیت کیلئے ہیں۔عالمی قوتوں کی طرف سے مسلط کی گئی جنگ کے خاتمہ کیلئے امن مذاکرات کیلئے جارہے ہیں۔ طالبان اور حکومت کے درمیان امن مذاکرات ہورہے ہیں۔ ڈرون حملوں کی روک تھام کیلئے سفارتی راستہ اپنانا ہو گا۔ علاقائی جرگہ میں فاٹا کے ہرطبقہ سے رکھنے والا جرگہ میں نمائندگی رکھتاہے توپھر مذاکرات کیلئے جرگہ کی خدمات حاصل کرنے سے گریز کیوں کیاجارہاہے۔ ان خیالات کااظہار انہوںنے جے یوآئی کے کارکن کی وفات پر تعزیتی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوںنے کہا کہ کامیاب مذاکرات کیلئے قبائلی روایات کو سمجھنا ہوگا۔ جنگ بندی سے قبل زبان بندی کرنازیادہ اہم ہے۔ مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہوگی۔ مذاکراتی کمیٹی کااعلان حکومت نے کردیاہے۔ اس پر پیشرفت کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہے۔ قبائلی جرگہ میں فاٹا کے تمام طبقہ کے لوگ رکنیت رکھتے ہیں۔ طالبان ‘ وکلائ‘ تمام سیاسی پارٹیز ‘ حتی کہ غیرمسلم بھی جرگہ کے نمائندہ ہیں تو پھر مذاکرات کی خدمات جرگہ سے کیوں نہیں لی جاتی۔ مذاکرات کیلئے جرگہ کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ مذاکرات کیلئے اور امن کے قیام کیلئے ہم مکمل طورپر حمایت کااعلان کرتے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان خود تو دھرنے میں شریک نہیں ہوتے صرف کارکن دھرنے میں شریک ہیں اور دھرنا اس روڈ پر دیا ہوا ہے جو نیٹو سپلائی کا راستہ ہی نہیں۔ نیٹو سپلائی کو دھرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امریکہ نے صاف صاف دھمکی دی ہے کہ نیٹو سپلائی روکنے کی صورت میں پاکستان کوآنے والی امریکی امداد روک دی جائے گی۔ عمران خان ڈرامائی دھرنے کے ذریعے امریکی امداد حاصل کررہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت نے جتنی محنت اور ہمت سے مذاکرات کافیصلہ کیاہے۔ یہ مذاکرات کامیاب اختتام پر پہنچیں۔ ایسا نہ ہو کہ جیسا حکومت نے سوات آپریشن کے وقت کیا تھا۔ کہ حکومت کے آپریشن کا فیصلہ پہلے سے ہی کیا ہوا تھا۔ مذاکرات کا عمل تو دو فریقین کے درمیاں ہوں گے ڈرون حملوں کی روک تھام کیلئے سفارتی راستہ اپنا نا پڑے گا۔ 2001سے ہی اصل میں خون ریزی کی بنیادرکھی گئی تھی جس کی سری کی ساری ذمہ داری پرویز مشرف پرعائد ہوتی ہے۔ 5 فروری کو یوم کشمیر آزاد کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ منائوں گا۔ فروری کا پہلا پورا ہفتہ یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ درحقیت مغربی قوتیں اپنی تہذیب پھیلانا چاہتی ہیں اور مسلمان کو اس کے دین اور تہذیب سے دور کرناچاہتی ہیں۔ مسلمان کو اسلامی تاریخ سے دور کیا جا رہا ہے۔ لیکن اپنی ثقافت‘ دین‘ تہذیب کو بچانا ہمارا اصل مقصد ہے۔ قابل غور بات ہے کہ کیا طالبان تنظیم سے باہر کے لوگوں کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کر سکتے ہیں۔ طالبان کی اپنی شناخت ہے، جانے کیوں انہوں نے کمیٹی کے لئے باہر سے نمائندے لئے ہیں۔ طالبان سے مذاکرات سے متعلق پارٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے، اجلاس میں مذاکرات سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، وزیراعظم سے بھی بات کروں گا۔ طالبان کی جانب سے دیئے گئے ناموں پر بھی غورکریں گے، قبائلی جرگے پر طالبان اور عوام کو اعتماد ہے، اسے نظرانداز کیوں کیا جا رہا ہے۔ طالبان کی کمیٹی کے ناموں پرپارٹی کے اندربحث کرنا چاہتے ہیں، جنگ بندی سے پہلے زبان بندی بھی ہونی چاہئے، کیا طالبان اپنی تنظیم سے باہرسے بھی نام لے سکتے ہیں، غورکی ضرورت ہے۔ قبائلی جرگے کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے، طے شدہ امور سے ہٹ کر عوام کو سرپرائز دیا جا رہا ہے۔ پورے ملک کو امن کی ضرورت ہے، جنگ ہماری نہیں، امریکہ اور مغرب کی ضرورت ہے، سویت یونین کے بعد پوری دنیا پر بالادستی قائم کرنا امریکہ کا منصوبہ ہے۔ مذاکرات کے لئے طالبان کے نامزد ناموں پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا،مذاکراتی عمل میں قبائلی جرگے کو نظر انداز کرنا حیران کن ہے،طالبان کی جانب سے اپنی تنظیم سے باہر کے لوگوں کے نام دے کر سرپرائزدیا جا رہا ہے، مذاکرات کے دوران آپریشن کی بات نہیں ہونی چاہئے، جنگ ہماری نہیں امریکہ اور مغرب کی ضرورت ہے۔ سویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا میں اپنا تسلط جمانے کے لئے امریکہ کا اپنا ایجنڈا ہے، جنگ ہماری ضرورت نہیں یہ امریکا اور مغرب کی ضرورت ہے، موجودہ صورت حال2001 کے بعد کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور آج دنیا میں جو خونریزی ہورہی ہے اس کا ذمہ دار امریکا اور پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے ذمہ دار پرویز مشرف ہیں۔