مذاکراتی عمل میں غیرجانبدار افراد کی نامزدگی اور احتیاط، دونوں فریق دباﺅ میں ہیں
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پاکستانی شدت پسندوں کی طرف سے مذاکراتی نمائندوں کی نامزدگی نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان مذاکرات براہ راست نہیں بلکہ بالواسطہ ہوں گے۔ نتیجتاً پیغام رسانی کی مشکلات کے باعث مذاکراتی عمل طول پکڑے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت بات چیت کے عمل سے بالکل باہر ہو گئی ہے، ان کے بدترین سیاسی مخالفین اس عمل کا اہم حصہ بن گئے ہیں جب کہ عمران خان طالبان کی نادان دوستی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔چار روز پہلے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل اس کے دائرہ کار اور طالبان کی طرف سے کمیٹی کی نامزدگی سے یہ بھی عیاں ہو گیا کہ حکومت اور شدت پسند سردست ایک دوسرے کی نیت اور پس پردہ عزائم کو جانچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مذاکرات کیلئے اپنی جستجو کو درست ثابت کرنے کیلئے کثرت سے غیر جانبدار نمائندوں کی نامزدگیاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ مذاکراتی عمل میں اس قدر احتیاط سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ حکومت اور شدت پسند دونوں اس حوالے سے دباﺅ میں ہیں۔ اس احتیاط کے پس پردہ حکومت کیلئے تو سیاسی نفع نقصان کا جواز ہو سکتا ہے جب کہ شدت پسندوں کو اپنی صفوں کے اندر سے ان گروپوں کے دباﺅ کا سامنا ہو سکتا ہے جو اب معمول کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ مذاکرات کے حامی محسود لڑاکا گروپ اس ضمن میں ایک اہم مثال ہیں جو کیمپوں میں پڑے محسود قبائل کی اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کے خواہاں ہیں اور یہ کام دوطرفہ پائیدار امن کے باعث ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
فریق دباﺅ میں ہیں