قرآن میں شفاء ہے!
اللہ سبحانہ وتعالیٰ قرآن حکیم کے متعلق فرماتا ہے کہ قرآن شفاء ہے ۔چنانچہ ارشاد فرماتا ہے: ’’اوراگر ہم اسے عجمی (عربی زبان کے علاوہ کسی) زبان کا قرآن بناتے تو وہ کافر لوگ کہتے کہ اسکی آیتیں کیوں واضح کی گئیں ،یہ کیا کہ عجمی کتاب اورآپ عربی رسول ؟اے نبی !ان سے کہہ دو: وہ تومئو منوں کیلئے شفاء اورہدایت ہے۔‘‘ اور ارشادفرمایا:اوریہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کیلئے تو سراسر شفاء اوررحمت ہے‘‘۔اس آیت میں لفظ ’’مِنْ ‘‘آیا ہے یہ ’’مِنْ‘‘بیانِ جنس کیلئے ہے یعنی جنسِ قرآن شفاء اوررحمت ہے ۔یہ ’’من ‘‘تبعیضیہ نہیں ہے کیونکہ قرآن حکیم سب کا سب شفاء اوررحمت ہے جیسا کہ ماسبق آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ یقینا قرآنِ حکیم ہر حالت‘ہر شک وشبہ اورہر زیب وترددسے قلوب کو شفاء دیتا ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے ازالہ امراض کے لیے قرآن حکیم سے زیادہ عام‘نفع بخش اورعظیم ترین اورزیادہ بہتر کوئی دوا نہیں پیدا کی۔سورئہ فاتحہ ایک ایسی آسان اورسہل ترین دوا ہے کہ اس کے مثل سہل وآسان اوربہترین دوا ممکن نہیں اگر کوئی اللہ کا بندہ اچھے طریقہ سے سورئہ فاتحہ کے ذریعہ علاج معالجہ کرے تو شفاء امراض کے لیے سورئہ فاتحہ کے اندر عجیب وغریب تاثیر پائے گا۔ چنانچہ ایک مدت مدید تک میں ’’مکہ معظمہ ‘‘میں رہا اوراس اثنا میں بہت سی بیماریا ں مجھ پر مسلط ہوتی رہیں مجھے یہاں نہ کوئی طبیب میسر آیا نہ دوا،میں صرف سورئہ فاتحہ سے اپنا علاج کرتا رہا اوراس کے اندر میںنے عجیب وغریب تاثیر دیکھی ۔ میں اکثر مریضوں کو سورئہ فاتحہ سے علاج کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ اورلوگ اکثر اس سے صحت یاب ہوجاتے تھے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ جو اذکار ‘آیات‘دعائیں پڑھی جاتی ہیں اورجن سے شفاء مطلوب ہوتی ہے یقینا نافع اور شفاء بخش ہوتی ہیں لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ محل اس کی قبولیت کی صلاحیت رکھتا ہو۔اور فاعل وعامل کی قوت وہمت اور اس کی تاثیر بھی قبولیت محل کی مقتضی ہو۔جو تم دیکھو کہ اذکا ر‘آیات اور دعائوں میں شفاء نہیں ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ پڑھنے اور دعاء کرنے والے کی تاثیر وتوجہ کمزور ہے یا اثر قبول کرنے والے میں قبولِ تاثیر کی صلاحیت نہیں ہے یا کوئی اورایسی شدید وسخت رکاوٹ موجود ہے جو دوا کی تاثیر کو روک رہی ہے‘جس طرح کہ عموما ظاہر ی اورحسی امراض میں دوائوں کا حال ہوا کرتا ہے اور کبھی ایسا اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ دوا کے اقتضا اور تاثیر کے درمیان کوئی قوی رکاوٹ مزاحم ہوجاتی ہے ۔جب طبیعت کسی دوا کو کامل طور پر قبول کرلیتی ہے تو جس درجہ طبیعت دواء کو قبول کر ے گی اسی درجہ بدن اورجسم کو نفع پہنچے گا۔(دوائے شافی،ترجمہ الجواب الکافی : محمد ابن ابی بکر ابن القیم الجوزیہ)