خضدار اور مظفر گڑھ کے واقعات پر چیف جسٹس کاازخود نوٹس
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے خضدار میں اجتماعی قبر اور مظفر گڑھ میں خاتون سے اجتماعی زیادتی کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹس طلب کر لی ہیں۔ خضدار میں اجتماعی قبر سے 13 افراد کی لاشوں کی برآمدگی اور مظفر گڑھ میں پنچائت کے حکم پر 40 سالہ بیوہ خاتون سے زیادتی‘ یہ دونوں واقعات ہمارے معاشرے میں لاقانونیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ چیف جسٹس جسٹس تصدق حسین جیلانی نے سوئوموٹو ایکشن لیکر قانون کی حکمرانی قائم کی ہے۔ بعض حکومتی حلقوں اور اداروں کو یہ گمان تھا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ریٹائرمنٹ کے بعدسوئو موٹو ایکشن والی عدلیہ کی فعالیت ختم ہوجائے گی اور وہ پھر سے اپنی من مانیوں میں آزاد ہوں گے جبکہ موجودہ چیف جسٹس نے بھی لا قانونیت کے متذکرہ سنگین واقعات کا نوٹس لے کر آئین و قانون کی حکمرانی کے لئے عدلیہ کی متعین کردہ سمت کے مستحکم ہونے کا پیغام دیا ہے جو درحقیقت ان کی عدالتی ذمہ داریوں کا تقاضہ بھی ہے۔ مظفر گڑھ کا واقعہ 21 جنوری کو رونما ہوا تھا لیکن مقامی انتظامیہ سمیت کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے نے اس پر کارروائی نہیں کی۔ میڈیا میں جب یہ مسئلہ آیا تو وزیراعلیٰ پنجاب نے اس کا نوٹس لیا اور پھر پولیس حرکت میں آئی۔ اب چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیا ہے تو اس لاقانونیت کو منطقی انجام تک پہنچایاجا ناچاہئے۔ ملزمان اور نام نہاد پنچایت کے افراد کو جلد از جلد اور سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی آدمی قانون کو ہاتھ میں لیکر بنت حوا کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ کرے۔ پولیس والوں کا بھی قبلہ درست کیا جائے کہ وہ ایسے جرائم پر آنکھیں کیوں بند کر لیتے ہیں۔ خضدار میں 13 افراد کو قتل کرکے انکی شناخت چھپانے کے لئے ان کے جسموں پر چونا ڈالا گیا تھا۔ اس اندھے اجتماعی قتل کے پیچھے خفیہ ہاتھ کو بے نقاب کرکے ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔