عمران‘ فضل الرحمن کے انکار پر افسوس‘ حکومت گرفتار نہ کر لے اس لئے اپنی کمیٹی نہیں بنائی : تحریک طالبان
پشاور (نیٹ نیوز+ نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں) تحریک طالبان پاکستان نے مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے مذاکراتی ٹیم میں شمولیت سے انکار پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان تحریک طالبان پاکستان شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو خود پر اعتماد نہیں تو یہ افسوسناک امر ہے، اوریا مقبول اور انصار عباسی کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ عمران خان اور جے یو آئی (ف) کے طالبان کے مذاکراتی عمل میں حصہ نہ بننے پر افسوس ہے۔ فضل الرحمان کو خود پر اعتماد نہیں تو یہ افسوسناک امر ہے۔ طالبان نے اوریا مقبول اور انصار عباسی کے ناموں پر غور شروع کر دیا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ اوریا مقبول جان اور انصار عباسی کے نام پہلے بھی زیر غور تھے اب بھی ہیں، بہت جلد ان دو ناموں پر فیصلہ ہو سکتا ہے۔ شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ مولانا سمیع الحق، مولانا عبدالعزیز اور پروفیسر ابراہیم پر مشتمل کمیٹی ہمارے لئے کافی ہے، ملاقات کے بعد ان سے مشورہ کریں گے، اگر ارکان کہیں گے تو اس بارے میں سوچیں گے، پہلے دنوں سے ہی سینئر صحافی انصار عباسی اور اوریا مقبول کے نام زیر غور تھے لیکن کمیٹی میں نام اس لئے شامل نہیں کیے کہ کمیٹی کا حجم نہ بڑھ جائے، ڈرون حملوں اور بمباریوں کے باعث محتاط رہتے ہیں، اس لئے میڈیا سے رابطے میں دشواریاں پیش آتی ہیں، پشاور میں سینما میں ہونیوالے دھماکوں سے تحریک طالبان کا کوئی تعلق نہیں۔ کمیٹی کے ممبران سے ملاقات کے بعد ان سے مشورہ کریں گے۔ اگر ارکان نے کہا کہ کمیٹی کے ارکان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تو پھر اس بارے میں سوچیں گے اور آگے کمیٹی سے مشاورت کریں گے۔ تحریک طالبان پاکستان کے نزدیک یہ دونوں لوگ صحیح ہیں۔ دریں اثنا کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت سے مذاکرات کی نگرانی اور طریقہ کار طے کرنے کیلئے 9 رکنی سیاسی شوری کا اعلان کیا ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان کے رہنما احسان اللہ احسان نے کہا کہ طالبان کی جانب سے قاری شکیل کی سربراہی میں 9 رکنی سیاسی شوریٰ کا اعلان کیا گیا ہے جس میں اعظم طارق، مولانا امیر اسلام، کمانڈر احمد (شینا باجوڑی)، انور گنڈا پوری، امیر کوئٹہ پیر صاحب، مولانا عبداللہ، یاسر اور کمانڈر پشتون شامل ہیں۔ 9 رکنی سیاسی شوریٰ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے سارے عمل کی نگرانی اور طریقہ کار طے کرے گی۔ ابھی تک ہماری جانب سے حکومت کے سامنے کوئی مطالبہ پیش نہیں کیا گیا، طالبان کے مطالبات کے حوالے سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلنے والی مطالبات کی فہرست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ حکومتی کمیٹی میں حکومت کا صرف ایک رکن شامل ہے جبکہ ہماری طرف سے بھی 5 رکنی کمیٹی غیر طالبان پر مشتمل ہے، جس قسم کی کمیٹی حکومت نے بنائی ہے ہم نے بھی ویسی ہی کمیٹی تشکیل دی اگر حکومت کی جانب سے حکومتی ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جاتی تو ہم بھی طالبان کے ارکان پر مشتمل کمیٹی بناتے۔ جب حکومت کی طرف سے حکومتی اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائیگی تو ہم اپنے نمائندوں کو ان کے سامنے بٹھا کر مذاکرات کریں گے تاہم جب تک حکومت موجودہ کمیٹی کے تحت مذاکرات کرے گی اس وقت تک ہماری نمائندگی مولانا سمیع الحق، پروفیسر ابراہیم، مولانا عبدالعزیز، عمران خان اور مفتی کفایت اللہ ہی کریں گے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے کوئی پیشگی شرط عائد نہیں کی حکومت پر مکمل اعتماد نہیں اس لئے طالبان پر مشتمل کمیٹی نہیں بنائی۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا کہ ہم نے جو کمیٹی تشکیل دی ہے اس کے ساتھ ہماری ملاقات دو روز میں متوقع ہے ہم اپنی شرائط رکھیں گے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا حکومت پر ابھی تک مکمل اعتماد نہیں اس لئے ہمیں اس بات کا خطرہ اور خدشہ ہے کہ اگر ہم اپنے ہی نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنائیں تو وہ شاید ہمارے مذاکرات کاروں کو ماضی کی طرح گرفتار کر لے مذاکراتی ٹیم ہمارے ساتھ مذاکرات کے لئے آئے گی تو اس سے ملاقات کی جگہ بھی ہم ظاہر نہیں کر سکتے کیونکہ بہت خدشات لاحق ہیں جب مذاکراتی ٹیم یہاں آئے گی تو ہم اسے مکمل تحفظ فراہم کریں گے اور ان کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے گا۔ سینئر صحافی انصار عباسی نے کہا ہے کہ حکومتی کمیٹی بننے سے قبل وزیراعظم نے مشورہ مانگا تھا کمیٹی میں شمولیت کی پیشکش کی تھی۔ طالبان کی جانب سے کمیٹی میں شامل کرنے پر ان کا مشکور ہوں تاہم کمیٹی کا ممبر نہیں بن سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں انصار عباسی نے کہا کہ میرا طالبان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ ایسی کمیٹی کا ممبر بننا پسند کرونگا جو دونوں کمیٹیوں کی غلطیوں کی نشاندہی کریگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں اس ملک میں امن و امان کا قیام ہو اور ملک امن کا گہوارہ بنے۔ اوریا مقبول جان نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ مذاکرات میں شامل نہیں ہوں اس گھوڑے پر نہیں بیٹھوں گا جس کی لگام میرے ہاتھ میں نہ ہو۔ دریں اثنا طالبان نے مذاکرات کیلئے مطالبات کی فہر ست تیار کر لی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق طالبان قیدیوں کی رہائی، شریعت کے نفاذ، سودی نظام کا خاتمہ اور فوجی چیک پوسٹیں ختم کرنے کے مطالبات پیش کریں گے مختلف جیلوں میں طالبان کے چار ہزار 725 قیدی ہیں خیبر پی کے میں 958، فاٹا میں 951، سندھ میں ایک ہزار 191، پنجاب 782 اور بلوچستان میں 870 طالبان جیلوں میں ہیں۔ طالبان کی 5 رکنی مذاکراتی کمیٹی کی تفصیلات سامنے آ گئیں جس میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے کس گروپ نے کون سا نام تجویز کیا۔ نجی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ تمام ارکان کے نام طالبان کمانڈروں نے تجویز کئے۔ مولانا سمیع الحق کا نام طالبان کمانڈر خالد شیخ حقانی کی سفارش پر شامل کیا گیا۔ عمران خان اور پروفیسر ابراہیم کے نام طالبان شوریٰ نے اتفاق رائے سے دئیے۔ مولانا عبدالعزیز کا نام غازی فورس کے کمانڈر نیاز رحیم نے دیا۔ نیاز رحیم عرف حلال جامع فریدیہ کے سابق طالب علم ہیں۔ مفتی کفایت اللہ کا نام پنجابی طالبان نے نامزد کیا۔