عدالت کسی کو زبردستی گھر بسانے پر مجبور نہیں کر سکتی: سپریم کورٹ
اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑے اور بچے کی کفالت کے حوالے سے دائر درخواست پر دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے ہیں کہ بحیثیت مسلمان اگر ایک خاتون اپنے شوہر کو پسند نہ کرے اور اس کیساتھ نہ رہنا چاہے تو اسے الگ ہونے کا حق حاصل ہے‘ عدالت کسی کو زبردستی گھر بسانے پر مجبور نہیں کرسکتی‘ معاشرتی ناہمواریوں کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں‘ عدالت نے خاتون اور ان کے شوہر کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ سمجھوتہ کرلیں‘ عدالت ان پر سمجھوتے کیلئے دبائو نہیں ڈال سکتی‘ عدالت کی اپنی حدود ہیں۔ عدالت نے پشاور میں فیملی جج کے پاس چلنے والے مقدمے کو خاتون کی درخواست پر اسلام آباد فیملی جج کے پاس منتقل کرنے کے احکامات بھی جاری کئے۔ دوران سماعت لڑکی کے خاوند عثمان نے عدالت کو بتایا کہ وہ تو اپنی بیوی کو بسانا چاہتا ہے اسلئے وہ کبھی طلاق نہیں دے گا۔ وہ اگر عدالت سے خلع لینا چاہیں تو اور بات ہے اس پر لڑکی کے والد نے کہا کہ اس کی ایک بیٹی بھی ہے اسے خسرہ نکلا تو اس کے والد نے کہا کہ اس کو بچپن میں خسرہ نہیں نکلا۔ وہ اپنی بیٹی کو ملنے آیا تو اسے بھی خسرہ ہوجائے گا۔ سال گزر گیا مگر اس نے پلٹ کر خبر تک نہیں لی اور اب پیسے دینے کا کہہ رہا ہے۔ اب یہ معاملہ آپ کے پاس ہے۔ اس پر عدالت نے شاہ خاور سے کہا کہ آپ کیا کہتے ہیں تو اس پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے سمجھوتے کی کوشش کرلی ہے لیکن فریقین راضی نہیں ہیں۔