• news

پروفیسر ابراہیم طالبان کمیٹی میں شامل رہیں گے، جماعت اسلامی نے توثیق کردی

اسلام آباد (آئی این پی) جماعت اسلامی نے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لئے طالبان کی مذاکراتی کمیٹی میں پروفیسر ابراہیم کی شمولیت کی باضابطہ توثیق کر دی ہے۔ یہ فیصلہ جماعت اسلامی کے سابق رکن اسمبلی میاں محمد اسلم کی رہائش گاہ پر امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کی زیر صدارت جماعتی قائدین کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں پروفیسر محمد ابراہیم، میاں اسلم و دیگر قائدین نے شرکت کی اور جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر ابراہیم کے طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کا رکن رہنے یا کمیٹی سے علیحدگی پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ جس کے بعد اتفاق رائے سے فیصلہ کیا گیا کہ پروفیسر ابراہیم طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کا حصہ رہیں گے کیونکہ اس مرحلے پر کمیٹی سے علیحدگی کے مذاکراتی عمل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے طالبان کی کمیٹی کے رکن سابق سینیٹر پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ اجلاس میں فیصلہ ہو گیا کہ وہ طالبان کی کمیٹی کا رکن رہتے ہوئے مذاکراتی عمل میں شریک ہوں گے۔ اس وقت طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے نکتہ نظر دو انتہائوں پر کھڑے ہیں لیکن جماعت اسلامی مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کی حامی ہے۔ فریقین ایک دوسرے کاموقف سنیں گے تو اعتماد بحال ہو گا۔ اعتماد سازی کے لئے دونوں فریقین کی جانب سے فائر بندی بھی ضروری ہے۔ طالبان اور حکومت کے درمیان اسلام آبادمیں براہ راست مذاکرات ہوں تو زیادہ اچھا ہے لیکن طالبان کو ڈرون حملوں کا بھی خطرہ ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کے لئے کسی بھی فریق کی جانب سے رد عمل کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے اور دونوں فریقوں کو مل کر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے والے ہاتھ ڈھونڈنے چاہئیں۔ مذاکرات ہی قیام امن کا آپشن ہیں۔ جماعت اسلامی آپریشن کی مخالف ہے اس لئے قیام امن کے لئے کردار ادا کرتے رہیں گے۔پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے رابطہ کیا ہے۔ ایک دو دن میں مذاکرات کی توقع ہے ہم رابطہ کار کمیٹی ہیں حکومت اور طالبان کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہے ہیں، آپریشن نہیں مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں، تمام مسائل کا حل مذاکرات ہیں، مذاکرات کو سبوتاژ کرنے والے عناصر پر بھی نظر رکھنا ہو گی، مذاکرات براہ راست اسلام آباد میں ہوں تو زیادہ اچھا ہو گا، طالبان نمائندوں کو براہ راست شامل کرنے سے مثبت نتائج نکلیں گے۔ طالبان پر ڈرون حملوں اور گرفتاریوں کے خدشات ہیں۔ قیام امن کیلئے دونوں فریقوں کو جنگ بندی پر عمل کرنا ہو گا۔

ای پیپر-دی نیشن