قد کاٹھ اور وزن کا جھگڑا
لڑکے لڑکی کا رشتہ طے کرنے میں سب سے زیادہ رکاوٹ لڑکی کے قد اور لڑکے کے کاٹھ کی وجہ سے پڑتی ہے۔لڑکی کو کم از کم پانچ فٹ دو انچ تو ہونا چاہئے اور لڑکے کے پاس صرف کاٹھ کباڑ ہو تو شادی طے نہیں ہو سکتی۔دونوں خاندان وزن کے مسئلے میں عدم توازن کا شکار ہوں تو بھی شادی نہیں ہو پاتی۔
ٹی وی پر ایک گٹھ مٹھیا بیٹھا کہہ رہا تھا کہ طالبان کی کمیٹی سے مولا نا فضل الرحمن کے نکلنے سے کمیٹی کاوزن کم ہو گیاہے اور عمران خان کے نکلنے سے اس کا قد کاٹھ گھٹ گیا ہے۔
ظاہر ہے یہ اعتراض بجا ہے اور اس کی روشنی میں دونوں کمیٹیوں کے مابین شادی پر بات چیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور ہوا بھی یہی، سرکاری کمیٹی نے طالبان کی کمیٹی سے ملنے سے انکار کر دیا جبکہ مولانا سمیع الحق واویلا کر رہے تھے کہ مجھے دو بجے کا وقت دیا گیا ، میں مظفر آباد کی کشمیر ریلی کو چھوڑ کر اسلام آباد آ چکا ہوں اور دوسرا فریق قد کاٹھ اور وزن کاجھگڑا ڈال کر روٹھ گیا ہے۔ مولانا سمیع الحق گھاٹ گھاٹ کاپانی پی چکے ہیں ، انہوںنے یہ بھی ترت جواب دیا کہ طالبان کسی امام مسجد یا مئوذن کو بھی نامزد کر دیں تو سرکاری کمیٹی کو ان سے بھی بات کرنا پڑے گی۔
قد کاٹھ اور وزن کا مرض ہمارے دوست عطاالحق قاسمی کو بھی لاحق ہو گیا ہے، انہوں نے کہیں وزیر اعظم کو بلایا اور ہر کالم نویس اور اینکر پرسن کو مدعو کیا مگر اس میں نوائے وقت اور نیشن کے کسی کالم نگار اور وقت ٹی وی کے کسی اینکر پرسن کو یاد نہیں فرمایا۔ خبریں کے ضیا شاہد اپنی جگہ پر تڑپ رہے ہیں کہ ان کے ادارے کا بھی بلیک آئوٹ کیا گیا۔اب کیا پتہ یہاں بھی مسئلہ قد کاٹھ اور وزن کا آن پڑا ہو۔ظاہر ہے جن لوگوں کو دربار شاہی کی قربت میسر نہیں ،، ان کا قد کاٹھ اور وزن کیا ہوگا۔ہمارے بڑے بھائی عبدالقادر حسن نے ایک اور رکاوٹ کا ذکر کیا ہے۔انہوں وزیر اعظم سے درخواست کی ہے کہ وہ میل ملاپ کا یہ سلسلہ جاری رکھیں اس لئے کہ ہمارے صحافی پاکستان کے صحافی ہیںسوائے ان دو چار کے جو پاکستان کے علاوہ بھی کسی کے صحافی ہیں۔
میں تو حسن ظن سے کام لینے کا عادی ہوں اور سوچ بھی نہیں سکتا کہ قادر حسن نے نوائے وقت اور نیشن کے دوچار صحافیوں کی طرف اشارہ کیا ہو۔ اور ہمیں پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کے صحافی سمجھ لیا ہو۔
عجیب زمانہ آ گیا ہے کہ جو لوگ ساری زندگی نوائے وقت میںلکھتے رہے اور یہیں سے اپنے قد کاٹھ اور وزن میں اضافہ کر کے دوسرے اخباروںمیں جا بیٹھے، اب انہیں وزیر اعظم کی محفلوںمیں ہماری موجودگی گوارا نہیں۔
یہ بات وزیر اعظم کے سوچنے کی ہے، کہ وہ پورے میڈیا کے وزیر اعظم ہیں یا محض ایک مخصوص ٹولے کے وزیر اعظم ہیں۔ایک ایسا دورجب اطلاعات تک رسائی کے حق پر قانون سازی ہو چکی ہو ، اس وقت چند اخبارات یا صحافیوں کو اطلاعات کے حق سے محروم رکھنا کونسی آزادی صحافت ہے۔کیا اس رویئے کوجمہوری اقدار کی رو سے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔کیا فوجی آمر جنرل مشرف کے دور میں میڈیا بریفنگز کی لسٹیں اسی طرح بنتی تھیں ، کیا زرداری صاحب کے دور میں کسی میڈیا ہائوس سے عناد اور تعصب کا مظاہرہ کیا گیا۔ کیاجنرل کیانی کے ساتھ صحافیوں کی ملاقاتوںمیںکسی کا بلیک آئوٹ کیا گیا۔اگر نہیں تو اب چندصحافیوں پر حکومتی بریفنگز کے دروازے کیوںبند کر دیئے گئے ۔اور کیا حکومت کی باقی ٹرم میں یہی رویہ ا پنایا جاتا رہے گا۔
حکومت کے پاس ایک ہمہ وقتی وزیر اطلاعات موجود ہیں، ان کا منصبی فریضہ ہے کہ وہ وزیر اعظم اور میڈیا کے درمیان ملاقاتوں کا اہتمام کریں، وفاقی سیکرٹری اطلاعات بھی اسی کام کے لئے موجود ہیں، اب تو نئے پی آئی ا و بھی آ گئے ہیں۔صوبے میں شعیب بن عزیز ایک عرصے سے میڈیا ایڈوائزری فرما رہے ہیں ، اتنی بڑی سرکاری اور حکومتی ٹیم کے ہوتے ہوئے وزیر اعظم کی میڈیا بریفنگز کا ٹھیکہ نجی ہاتھوں میں کیسے اور کیوں دے دیا گیا ، کیا یہ اس حکومتی ٹیم پر عدم اعتماد کے مترادف نہیں۔
حکومت آزاد میڈیا سے شاید خوف زدہ ہے، وہ اس کا سامنا کرنے سے گھبراتی ہے، ویسے اس حکومت نے کتنے ہی کالم کاروں کو سرکاری نوکریوں پر فائز کردیا ہے،جو ظاہر ہے حکومتی قصیدے لکھنے پر مجبور ہیں اور یہ سب ایک ہی میڈیا ہائوس سے تعلق رکھتے ہیں۔اللہ ان کونت نیاروز گار عطا کرے، نجم سیٹھی، رئوف طاہر،عطا الحق قاسمی، عرفان صدیقی وغیرہ حکومتی مناصب پر بھی ہیں اور کالم نگار اور اینکر پرسن بھی ہیں توحکومت کو ان کی لیاقت اور صلاحیت پر اعتماد ہونا چاہئے اور ان کے مقابلے میں اگر کوئی اکا دکا کالم نویس یا اینکر پرسن حکومت کا وظیفہ خوار نہیں تو اس کا بائیکاٹ کرنے کی یہ تو کوئی معقول وجہ نہیں بنتی۔
چلئے حکومت اپنا شوق پورا کر کے دیکھ لے، اس نے عرفان صدیقی کے قد کاٹھ اور وزن کے پیش نظر انہیں ایک اعلی اور ارفع قومی اور عالمی مشن سونپ دیا ہے تو وہ ڈیلور کرکے دکھائیں۔مگر افسوس کہ بھائی صاحب کا لکھا ہوا ان کے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہے، ان کا آخری کالم مولا نا سمیع الحق کی شان میں لکھا گیا، ان کے قلم نے مولانا فضل الرحمن کی شان میں کئی مرتبہ جولانیاں دکھائیں اور عمران خان کی تواضع تو وہ ہمیشہ فرماتے رہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ روز قیامت انسان کا ایک ایک عضو اس کیخلاف گواہی دے گا۔ یہاں تو یہ تماشہ اسی دنیامیں دیکھنے کو مل رہا ہے، سرکاری رابطہ کار کا لکھا ہواایک ایک حرف ان کے راستے میں پتھر بن گیاہے۔اور جب وہ مولانا سمیع الحق کی کمیٹی سے ملنے سے گھبرا رہے تھے تو اس کی وجہ سمجھنے کے لئے ذہن پر زیادہ زور نہیںڈالنا پڑا۔
اگر عرفان صدیقی نے اب تک جو لکھا ، وہ کسی کو مرچیں لگانے کے لئے لکھا اور عطا قاسمی نے مجھ جیسے لوگوں کو وزیر اعظم سے دور رکھ کر مرچیں لگانے کی کوشش کی تو ان صاحبان عالی شان کی یہ کوششیں کامیاب رہیں مگر ہم تو پھر بھی ان کے لئے دعا گو ہیں ،اللہ عطا قاسمی کو وزیر اعظم کے اور قریب کر ے ، میری تو خواہش اور دعا تھی کہ و زیر اعظم انہیں پنجاب کا گورنر لگاتے ، برادرم مجیب شامی کے گھر ایک برنچ میں عطا قاسمی کی بذلہ سنجی سے میں بے حد محظوظ ہوا، اس سے پہلے صبح سویرے روزنامہ خبریں میں ان کی شان نزول پر ایک کالم نے بھی بے حد شاد کام کیا ۔
دعا یہ بھی ہے کہ عرفان صدیقی کے قد کاٹھ اوروزن میں اور اضافہ ہو ۔لیکن یہ اضافہ انہیں باقی حقیر مخلوق سے رابطے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔ سفارت ، سیاست، اور رابطہ کاری کے لئے بہر حال ایک مخصوص مزاج درکار ہے، وہ ہم لکھنے والوں کو اللہ نے عطا نہیں کیا توہمیںقلم گھسائی میں مگن رہنا چاہئے۔ اور سیاست کاروں اورمدبروںکے کام میں دخل در معقولات سے پرہیز کرنا چاہیے ورنہ خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اللہ بچائے!