قومی اسمبلی: انسداد دہشت گردی کے 2 ترمیمی اور تحفظ پاکستان آرڈیننس کی مدت میں توسیع کی منظوری
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ نیوز ایجنسیاں) قومی اسمبلی نے انسداد دہشت گردی ترمیمی آرڈیننس نمبر 7 کو مزید 120 دنوں تک توسیع دینے کے حوالے سے قرارداد کی کثرت رائے سے منظوری دیدی ہے جس کے تحت یہ آرڈیننس 7 فروری 2014ء سے مزید 120 دنوں تک کیلئے موثر رہے گا۔ قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر زاہد حامد نے قرارداد پیش کی کہ انسداد دہشت گردی ترمیمی آرڈیننس کی مدت میں 7 فروری 2014ء سے 120 دن کی توسیع کی جائے۔ آفتاب احمد خان شیرپائو نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت آرڈیننس کی مدت میں توسیع کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے مگر اس کی روح یہ ہے کہ آرڈیننسوں کا اجراء ختم کیا جائے، ہمیں قانون سازی پر توجہ دینی چاہئے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی اس موقف کی تائید کی اور کہا کہ آرڈیننسوں کا اجراء بامر مجبوری ہوتا ہے۔ جمہوری طریقہ کار کے مطابق آرڈیننس جاری کرنے کی بجائے قانون سازی ہونی چاہئے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے سردار نبیل احمد گبول، جماعت اسلامی کی طرف سے صاحبزادہ طارق اللہ، آزاد رکن جمشید احمد دستی، مخدوم جاوید ہاشمی، ایس اے اقبال قادری، ڈاکٹر شیریں مزاری، شیر اکبر خان اور ڈاکٹر عارف علوی نے قرارداد کی مخالفت کی اور کہا کہ قانون سا زی کے حوالے سے افہام و تفہیم سے کام لیا جائے‘ قوانین مسلط نہ کئے جائیں۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے قرارداد کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے کراچی کے دورے کے موقع پر یہ قانون لانے کی ضرورت محسوس کی‘ ہم نے اسلام آباد میں ایم کیو ایم، سندھ کی صوبائی حکومت اور دیگر فریقین کی موجودگی میں یہ قانون لانے پر اتفاق کیا جس کے بعد مسودے کو حتمی شکل دے کر وفاقی کابینہ میں پیش کیا گیا۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی نے انسداد دہشت گردی ترمیمی آرڈیننس 2013ء نمبر 8 (انٹی منی لانڈرنگ) کو مزید 120 دنوں تک توسیع دینے کیلئے قرارداد کی کثرت رائے سے منظوری دیدی ہے جس کے مطابق یہ آرڈیننس 9 فروری 2014ء سے مزید 120 دنوں تک کیلئے موثر رہے گا۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی نے تحفظ پاکستان آرڈیننس 2013ء کو مزید 120 دنوں تک توسیع دینے کیلئے قرارداد کی کثرت رائے سے منظوری دیدی ہے جس کے مطابق یہ آرڈیننس 6 فروری 2014ء سے مزید 120 دنوں تک موثر رہے گا۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر زاہد حامد نے قرارداد پیش کی کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس 2013ء کی مدت میں 6 فروری 2014ء سے 120 دنوں کی توسیع کی جائے۔ ایس اے اقبال قادری، ڈاکٹر شیریں مزاری، شاہدہ اختر علی، محمد ایاز سومرو، صاحبزادہ طارق اللہ، شفقت محمود، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، عالیہ کامران، شیر اکبر خان، ڈاکٹر عارف علوی، شازیہ مری، سلمان بلوچ اور صاحبزادہ محمد یعقوب نے قرارداد کی مخالفت کی۔ سپیکر نے قرارداد ایوان میں پیش کی۔ سٹاف رپورٹر کے مطابق جماعت اسلامی کی ترامیم مسترد جبکہ تحریک انصاف کی ترامیم زیر غور نہیں لائی گئیں۔ اپوزیشن ارکان کا اصرار تھا کہ ان کے پارلیمانی قائدین کی عدم موجودگی کے سبب آرڈیننسوں کی منظوری آج صبح تک ملتوی کی جائے تاکہ ان پر بحث بھی کی جا سکے تاہم سپیکر نے کارروائی جاری رکھی جس کے بعد پیپلز پارٹی کی شازیہ مری، پارٹی کے دیگر ارکان اور تحریک انصاف کے بعض ارکان غیر اعلانیہ طور پر ایوان سے چلے گئے۔ جماعت اسلامی کے طارق اللہ بھی جانے والوں میں شامل تھے لیکن شیر اکبر خان ایوان میں بیٹھے رہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے احتجاج کیا کہ حکومت نے قراردادوں کے ذریعے ان آرڈیننسوں کی آئندہ 120 دنوں کیلئے توسیع حاصل کر لی ہے اب قانون سازی میں جلد بازی نہ کی جائے اور کل تک کا انتظار کیا جائے اس وقت ایوان میں اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی لیڈر موجود نہیں جس پر وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ بڑے کہتے ہیں کہ آج کا کام کل پر مت چھوڑو۔ آفتاب احمد خان شیرپائو نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت آرڈیننس کی مدت میں توسیع کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے مگر اس کی روح یہ ہے کہ آرڈیننسوں کا اجراء ختم کیا جائے، ہمیں قانون سازی پر توجہ دینی چاہئے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے سردار نبیل احمد گبول، جماعت اسلامی کی طرف سے صاحبزادہ طارق اللہ، آزاد رکن جمشید احمد دستی، مخدوم جاوید ہاشمی، ایس اے اقبال قادری، ڈاکٹر شیریں مزاری، شیر اکبر خان اور ڈاکٹر عارف علوی نے مخالفت کی اور کہا کہ قانون سا زی کے حوالے سے افہام و تفہیم سے کام لیا جائے‘ قوانین مسلط نہ کئے جائیں۔ زاہد حامد نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) بھی آرڈیننسوں کے اجراء کے حق میں نہیں ہے، ہم بھی چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ ہم اتفاق رائے سے قانون سازی چاہتے ہیں اگر چاہتے تو قائمہ کمیٹی سے منظوری کے بعد مل بیٹھنے پر آمادہ نہ ہوتے۔ آفتاب احمد خان شیرپائو نے کہا کہ آرڈیننس میں توسیع 120 دنوں تک نہ کی جائے ‘جلد از جلد اس پر قانون سازی کی جائے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ ملک میں پہلے بھی قوانین موجود ہیں‘ اصل مسئلہ ان پر عملدرآمد کا ہے‘ ہم اگر اس آرڈیننس کے نافذ ہونے کے بعد ہی بیٹھ جاتے تو توسیع کی نوبت ہی نہ آتی‘ توسیع کے بعد ہمیں مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے ملک اور قوم کیلئے قانون سازی کرنا ہو گی۔ سپیکر نے قرارداد ایوان میں منظوری کیلئے پیش کی جس کی ایوان نے کثرت رائے سے منظوری دیدی۔ ایم کیو ایم کے علاوہ ساری اپوزیشن ایوان سے واک آؤٹ کر گئی، محمود خان اچکزئی، عارف علوی، شیریں مزاری، شازیہ مری اور ایس اے اقبال کے اعتراضات مسترد کر دئیے گئے، جنہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ایک روز کے لئے معاملے کو مؤخر کر دیا جائے۔ وفاقی وزراء خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال نے کہا کہ آج کا کام کل پر مت چھوڑو، انوکھے لاڈلوں کو کون سمجھائے کہ ایجنڈا پر تمام چیزیں موجود ہیں مگر وہ خود ہی اٹھ کر چلے گئے اور ٹی وی شوز میں بیٹھ گئے ہیں، یہاں صرف ٹی اے ڈی اے کیلئے تشریف لائے ہیں۔ آئی این پی کے مطابق دو قانونی بل کثرت رائے سے منظور کر لئے، اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ ترمیم ایوان نے مسترد کر دیں، انسداد دہشت گردی ترمیمی بل (آرڈیننس 7) کے پیش کرنے پر اپوزیشن نے اعتراض کیا جبکہ حکومت کے اصرار پر پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے اراکین واک آئوٹ کر کے ایوان سے باہر چلے گئے۔ سپیکر سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق بل کے تحت کالعدم تنظیموں اور افراد کو فنڈز کی فراہمی پر پابندی ہو گی۔ ثناء نیوز کے مطابق معتبر ذرائع کی بنیاد پر دہشت گردی کیلئے قائم مالی معاونت سے متعلق نیٹ ورک کے سدباب کیلئے اقدامات کئے جائیں گے معاونین کو گرفتار کر کے ان کی جائیدادیں ضبط اور بینک اکائونٹس منجمد کر دیئے جائیں گے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد نے کہا ہے کہ جمشید دستی کے الزامات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا، وہ اس قدر اہمیت کے لائق نہیں۔ واضح رہے کہ جمشید دستی نے بل پر اعتراض کرتے ہوئے زاہد حامد کو صدر مملکت کا منشی کا کردار ادا کرنے کا کہا تھا۔