مولانا فضل الرحمٰن کا ’’ قہقہہ؟‘‘
مِیڈیا والے مشہور لوگوں کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔اداکارہ مِیرا بر قع پہن کر اور چِنگ چی پر سوار ہو کر اپنے آبائی شہر شیخوپورہ کی سڑکوں اور محلّوں میں گھومتی رہی تو الیکٹرانک مِیڈیا نے اپنے ناظرین کی دلچسپی کا سامان پیدا کر دِیا ۔ اُسی روز 5فروری کو ایک نیوز ایجنسی کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کا ’’ قہقہہ‘‘ منظرِ عام پر آگیا۔خبر کے مطابق’’مسلم لیگ ق کے ممتاز رہنما چودھری پرویز الہی نے مولانا فضل الرحمٰن کو پہلے اِس بات کی مبارک باد دی کہ اُن کی جمعیت عُلما اسلام کے جناب محمد اکرم دُرانی نے وفاقی وزیر اور مولانا عبدالغفور حیدری نے وزیرِ مملکت کی حیثیت سے حلف اُٹھا لِیا ۔پھر چودھری صاحب نے مولانا صاحب سے ہمدردی کا اظہار بھی کِیا کہ اُن کے دونوں وزیروں کو ابھی تک قلم دان ہائے وزارت نہیں دئیے گئے ۔خبر کے مطابق ’’اِس پر مولانا صاحب نے ’’ قہقہہ ‘‘ لگایا ‘‘۔
کھِلکھلا کر ہنسنے یا زور کی ہنسی کو ’’قہقہہ‘‘ کہا جاتا ہے لیکن ’’ قہقہہ لگانا‘‘ مضحکہ اُڑانا کی جگہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی کسی دوسرے کا جیسے حضرت داغـؔ دہلوی نے کہا تھا ؎
’’ہو گیا عِید ، اُن کو میرا سوگ
قہقہے اُڑا رہے ہیں، ماتم میں ‘‘
مَیں جب بھی مختلف نیوز چینلوں پر مولانا صاحب کو ،مُسکراہٹ بکھیرتے دیکھتا ہوں تو، وہ بہت اچھے لگتے ہیں لیکن بعض مُتعصب لوگ اُن کی مسکراہٹ کو کچھ اور ہی رنگ دیتے ہیں۔ جیسا کہ جناب مسرورؔ نے کہا تھا کہ ؎
’’چھیڑ کرتی ہُوئی، جب بادِ صبا آتی ہے
مسکراہٹ لبِ غنچہ کی ستم ڈھاتی ہے‘‘
مولانا فضل الرحمٰن کی مُسکراہٹ سِتم ڈھانے والی نہیں ہے ۔اُن کے ترجمان جناب جان اچک زئی کو مَیں نے 4 فروری کی شب ایک نیوز چینل کے ’’ مخولیا پروگرام‘‘ میں مہمانِ خصوصی کے رُوپ میں دیکھا۔قہقہے مارتے ہُوئے۔ جان صاحب پہلے ’’ جان‘‘ ہیں جو جانؔ کہنے پر بُرا نہیں مانتے ۔ یہ مشہور شعر آپ نے سُنا یا پڑھا ہی ہو گا کہ ؎
’’جان کہہ کر جو بُلایاتو ،بُرا مان گئے
آئِینہ اُن کو دِکھایا تو بُرا مان گئے ‘‘
پروگرام میں اینکر پرسن نے کہا کہ ’’ ہمارے پاس جان صاحب کے کچھ جوانی کے معاملات ہیں ‘‘۔ تو جان صاحب نے قہقہہ مارا اور جب ایک مخولیا اداکارنے جان صاحب کے صفا چٹ سر کے بارے میں کہا کہ’’ آپ تو کسی بھی مخالف کو ٹکر بھی مار سکتے ہیں‘‘ تو بھی جان صاحب نے پھر قہقہہ مارا ۔پروگرام میں جان صاحب کو آئینہ نہیں دِکھایا گیا۔ دکھایا جاتا تو پتہ چلتاکہ وہ بُرا مناتے ہیںیا آئینہ دار کو انعام دیتے ہیں۔کسی عالمِ دین کا قہقہہ مارنا اچھی بات ہے ۔نہ جانے ’’شیخ اُلاسلام‘‘کا لقب اختیار کرنے کے بعد علّامہ طاہر اُلقادری کو کِس ڈاکٹر نے مشورہ دیا ہے کہ ’’قہقہہ مارنا یہاں تک کہ لبوں پرتبسم بکھیرنا بھی خلافِ شریعت ہے‘‘۔ علّامہ طاہر اُلقادری خود پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں لیکن مشورے میڈیکل ڈاکٹر سے لیتے ہیں۔کسی طبیب سے ہر گز نہیں وگرنہ اُنہیں بیماری کی صورت میں ملامتی صوفی شاعر بابا بُلّھے شاہ القادری کا یہ شعر بھی پڑھنا پڑتا کہ؎
’’ چھیتی بوڑِھیں وے طبیبا ، نئیں تاں مَیں مر گئی آ
تیرے عِشق نچایا ، کر کے تھِیّا تھِیّا ‘‘
ڈاکٹر القادری صاحب صِرف اپنے ہاتھوںکو نچا نچا کر ’’ تھِیّا تھِیّا‘‘ کرتے ہیں لیکن اُس وقت جب مخالفین کے خلاف اُن کا غیظ و غضب کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلک جائے ۔القادری صاحب خود کو ’’ ملامتی صوفی‘‘ نہیں کہتے ۔ کوئی اُن کی ملامت کرے تو بہت بُرا مناتے ہیں۔ بد دُعا بھی دے دیتے ہیں ۔ مخالفین کو بددُعا دینے میں آج تک کوئی بھی مذہبی رہنما طاہر اُلقادری صاحب کا ریکارڈ نہیں توڑ سکا۔ یہ الگ بات کہ بارگاہِ الہی میں موصوف کی کوئی بھی بد دُعا آج تک قبول نہیں ہُوئی اور نہ ہی موصوف کی یہ خواہش کہ ؎
’’ سُنجیاں ہووَن گلِیاں، وِچّ قادری یار پھرے‘‘
مولانا سمیع اُلحق کسی کو بد دُعا نہیں دیتے صِرف اتنا کہتے ہیں کہ’’ اگر طالبان کے خلاف آپریشن کِیا گیا تو پورے مُلک میں آگ لگ جائے گی ‘‘۔ مَیں نے لڑکپن میں ایک کلاسیکی گیت سُنا تھا ،جِس کا ٹِیپ کا مِصرع تھا ’’ کہیں آگ نہ لگ جائے !‘‘۔ مجھے اُس وقت اُس گیت اور مِصرعے کا مفہوم سمجھ میں نہیں آیا تھا ۔بہر حال مولانا فضل الرحمٰن ، مولانا سمیع الحق کی پیشگوئی یا ڈراوے کو خاطر میں نہیں لا رہے ۔تبھی تو وہ قہقہہ مارتے ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین میں ایک دیوار ’’دیوارِ قہقہہ‘‘ ہے ، جِس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو کوئی اُس دیوار پر چڑھ کر اوپر سے نیچے دیکھتا ہے ، بے اختیار قہقہہ مارتا ہے ۔ مجھے دو بار عوامی جمہوریہ چین کا سرکاری دورہ کرنے کا موقع مِلا لیکن میزبانوں نے مجھے ’’ دیوارِ قہقہہ‘‘ نہیں دکھائی۔ مَیں نے بُرا بھی نہیں منایا کیونکہ مجھے قہقہہ مارنے کے لئے چین جانے کی ضرورت نہیں۔چودھری پرویز الہی نے بھی اِس طرح کی بات کی تھی کہ مولانا فضل الرحمٰن کے لئے قہقہہ مارنے کا سامان ہو گیا۔ میرا خیال ہے کہ چودھری پرویز الہی نے جناب محمد اکرم اور مولانا عبدالغفور حیدری کو قلم دان ہائے وزارت نہ مِلنے پر مولانا صاحب سے ہمدردی کے بہانے اُنہیں چھیڑا تھا ،لیکن مولانا نے چودھری صاحب کی چھیڑ چھاڑ کو قہقہے میں اُڑا دِیا ۔حضرت ِحیدر علی آتشؔنے کسی مسلمان عالمِ دِین کے بجائے ایک برہمنؔ کو چھیڑا تھا ،جب کہا کہ ؎
’’چھیڑا ہے، جا کے مَیں نے برہمن کو دَیر میں
لی ہے قسم بُتوں سے، خُدائے کبِیر کی‘‘
مُجھے یقین ہے کہ جنابِ آتشؔ نے جِس برہمن کو چھیڑا تھا، اُس نے مولانا فضل الرحمن کی طرح قہقہہ نہیں مارا ہو گا۔