مذاکرات کیلئے پروفیسر ابراہیم کو ’’سہولت کاری‘‘ کی دعوت کھلے دل سے قبول کی ہے: لیاقت بلوچ
اسلام آباد+ لاہور (وقائع نگار خصوصی+ خصوصی نامہ نگار) جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے امن کے قیام کے لئے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ موجودہ مذاکرات مقامی کمانڈروں کی سطح پر نہیں بلکہ وفاقی حکومت اور طالبان کی اعلیٰ ترین سطح کی قیادت کے فیصلوں کا نتیجہ ہیں۔ قبل ازیں 11 مرتبہ مذاکرات کی کوششیں کی گئیں جس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدات میں سے 9 ختم ہو چکے ہیں 2 پر اب بھی کسی نہ کسی صورت میں عمل جاری ہے۔ جماعت اسلامی روز اول سے دہشت گردی کے اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے مذاکرات پر زور دیتی رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں محمد اسلم، زبیر فاروق خان، شاہد شمسی اور دیگر بھی موجود تھے۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ ہمارے نزدیک مسئلہ کے دو بنیادی فریق حکومت اور طالبان ہیں اور فریقین کے موقف کے درمیان کس قدر فرق اور فاصلہ ہے یہ بہت واضح ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ماضی میں امن کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں اور دونوں اطراف سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ اس تناظر میں حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے اس ابتدائی مرحلہ پر جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر محمد ابراہیم کو ’سہولت کاری‘ کی جو دعوت دی گئی ہے اسے ہم نے قومی خدمت، عبادت اور اپنی اخلاقی ذمہ داری کے طور پر کھلے دل سے قبول کیا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم اس نازک مرحلہ میں فریقین کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتے ہوئے کم از کم قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے اپنے اثرات استعمال کریں۔ ہماری نگاہ میں یہ کمیٹی طالبان کی ترجمان نہیں بلکہ طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات اور معاملات کو طے کرنے میں مددگار کمیٹی کی حیثیت رکھتی ہے جس پر طالبان نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور حکومت بھی اسے معتبر ذریعہ سمجھتی ہے۔ موجودہ صورت حال کا اصل سبب امریکہ کی ناجائز طور پر چھیڑی ہوئی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے جس نے خطہ کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور اس جنگ میں پاکستان کی شرکت ہے جو ایک فوجی حکمران کے فیصلہ کے تحت قوم کے جذبات کے برعکس کی گئی۔ جماعت اسلامی روز اول سے دہشت گردی کے مسئلہ سے نمٹنے کے لئے مذاکرات پر زور دیتی رہی ہے، ہم نے ہمیشہ ہر فورم سے قوم کو پیغام دیا کہ ایسے معاملات میں طاقت کا استعمال نفرت میں اضافہ اور طاقت کے ذریعہ جواب الجواب کے ایک تباہ کن چکر کو جنم دیتا ہے۔