قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میں ارکان کی مایوس کن حاضری
جمعہ کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس منعقد ہوئے قومی اسمبلی کا 8 واں سیشن دو ہفتے تک جاری رہنے کے بعد غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا حکومت نے یہ اجلاس تین متنازعہ آرڈیننسوںکو بل کی صورت میں منظور کرانے کے لئے بلایا گیا تھا لیکن دو ہفتے کی کوشش کے باوجود حکومت اپوزیشن کو بلوں کی منظوری پر آمادہ کر سکی اور نہ ہی اتحادی جماعتیں اس معاملہ پر حکومت کے ساتھ کھڑی ہونے کے لئے تیار ہوئیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہو رہا تھا اس لئے بیشتر ارکان اپنے اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں چلے گئے اس لئے ایوان میں حاضری مایوس کن رہی اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی نہ کرکے حکومت کو شرمندگی سے بچا لیا۔ دو ارکان قومی اسمبلی سید ایاز علی شاہ شیرازی اور ڈاکٹر درشن کو سندھ کول اتھارٹی کارکن بنانے کرنے کی تحریک منظور کی گئی۔ ایوان میں محمود خان اچکزئی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ پارلیمنٹ لاجز میں تاحال ایسے بیس لوگوں کے پاس رہائش گاہیں ہیں جن کے پاس الگ سے بھی سرکاری بنگلے ہی گورنمنٹ ہاسٹل کو قبضہ میں لایا جائے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے بتایا کہ 21ارکان ایسے ہیں جن کے پاس رہائش گاہیں نہیں ہیں۔ سینٹ کا اجلاس مجموعی طور پر ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہا۔ ایوان میں ارکان کی حاضری مایوس کن رہی دو وزارتوں نے سوالات کے جواب نہ دیئے تو انہیں مؤخر کر دیا گیا۔ سینٹ سے جمعیت علماء اسلام (ف) نے سندھ میں ڈاکوئوں کے ہاتھوں اپنے کارکنان او ر عہدیداروں کے اغواء کے خلاف ایوان سے علامتی واک آئوٹ کیا۔