• news

شریعت ڈرائونی چیز نہیں: منور حسن‘ پاکستانی آئین کی صورت میں اب بھی نافذ ہے: لیاقت بلوچ

لاہور (سپیشل رپورٹر) امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے کہا ہے کہ شریعت کا نام سن کرکسی کو پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ شریعت کوئی خطرناک یا ڈرائونی چیز نہیں بلکہ انسانیت کی رہنمائی اور بھلائی کیلئے اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ نفاذ شریعت کا مطالبہ نہ تو نیا ہے اور نہ غیر آئینی، آئین پاکستان میں قرآن و سنت کو ملک کاسپریم لاء تسلیم اور یہ عہد کیا گیا ہے کہ ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کیخلاف نہیں بنایا جائیگا، حکمران 73ء کے آئین کو اسکی روح کے مطابق نافذ کردیں تو نہ صرف ملک مسائل کے گرداب سے نکل آئیگا بلکہ قیام پاکستان کے مقاصد کی بھی تکمیل ہوگی اور بین الاقوامی برادری میں ہمارا قومی وقار بھی بحال ہوجائیگا۔ ملکی ترقی اور عوامی فلاح کیلئے اغیار کے ناکام نظاموں کو آزمانے اور دربدر ٹھوکریں کھانے کے باوجودہم اللہ کی طرف رجوع کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جو لوگ شریعت کے نام سے چڑتے ہیں وہ دراصل آئین پاکستان کی نفی کرتے ہیں۔ ملا ازم اور طالبانائزیشن کی باتیں کرنے والے دراصل اسلام کے خلاف اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ مذاکرات کی کامیابی ملک و قوم کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منصورہ میںمنعقدہ دانشوروں اور ماہرین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سید منور حسن نے کہا کہ اردو کو ذریعہ تعلیم نہ بنا کر آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرف نے دوبار آئین توڑا اور چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے کئی ججز کو نظربند رکھا، آج عدالت کے بار بار طلب کرنے اور گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کے باوجود عدالت میں پیش ہونے کو تیار نہیں۔
لاہور (سپیشل رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ معصوم لوگوں کے قتل اور بندوق سے شریعت نافذ نہیں ہوسکتی، پاکستان کا آئین عین قرآن و سنت کے مطابق ہے اس لحاظ سے پاکستان میں اس وقت بھی شریعت نافذ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو بیرونی فنڈز کے ذریعے ملک کو سیکولر بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ دریں اثناء اسلام آباد میں این ایل ایف کے زیراہتمام انسداد نجکاری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ قومی اداروں کی نج کاری قومی سلامتی کے لئے خطرناک اور قومی وجود کا سودا ہے۔ ماضی میں نج کاری پالیسی ناکام رہی ہے۔ قومی اداروں کو من پسند افراد کو نوازنا قومی جرم ہے۔ انہوں نے کہاکہ جنرل ضیاء الحق دور میں اتفاق فائونڈری کی نج کاری کی گئی۔ مزدورں کا معاشی قتل ہوا حکمران اور مالکان بتائیں کہ یہ ادارہ کیوں نہیں چلایا جاسکا۔ پی ٹی سی ایل کی قیمت آج تک قومی خزانہ میں نہیں آئی۔ دعویٰ کیا گیا کہ نج کاری سے قرضوں کی لعنت سے بوجھ ختم ہو گا لیکن 32 ارب ڈالر سے بیرونی قرضہ 70 ارب ڈالر اور اندرونی قرضے 1200 سے 3700 ارب روپے تک بڑھ گیا ہے۔ اداروں کو غلط پالیسی، غلط کار افراد کے تسلط، اداروں پر لوٹ مار پالیسی نے تباہ کیا۔ قومی اداروں کے انجینئرز، ہنر مندوں، محنت کشوں پر اعتماد کیا جائے۔ لیاقت بلوچ نے کہاکہ 68 قومی اداروں کی نج کاری کے خلاف مزدور یونینز، فیڈریشنز جو احتجاج اور تحریک چلائیں گی، جماعت اسلامی بھرپور ساتھ دے گی۔ 18 فروری کو کراچی، 4 مارچ کو لاہور میں انسداد نج کاری قومی کانفرنس اور احتجاجی ریلی میں بھر پور شرکت کی جائے گی۔ اس موقع پر ملک بھر کی مزدور تنظیموں نے قومی اداروں کی نجکاری کے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ قومی اداروں کی نجکاری کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے۔ حکومت فیصلے پر نظرثانی کرے ورنہ احتجاج کا دائرہ وسیع کر دیا جائے گا۔ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ ماضی میں حکومت نے 169قومی اداروں کی نجکاری کی ہے جس میں80فیصد ادارے یا تو مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں یا پھر اس کی کارکردگی مزید خراب ہو چکی ہے۔ ماضی میں نجکاری سے لاکھوں مزدور بے روز گار ہو چکے ہیں۔ حکومت پہلے ماضی میں کی گئی نجکاریوں کا حساب دے۔

ای پیپر-دی نیشن