550 ملین ڈالر کی تیسری قسط منظور‘ مہنگائی7 فیصد سے نہ بڑھے‘ پاکستان ٹیکس استثنیٰ ختم کرے: آئی ایم ایف
دبئی (نوائے وقت نیوز+ رائٹر+ ایجنسیاں) آئی ایم ایف نے پاکستان میں معاشی اصلاحات، اقتصادی استحکام کیلئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے توسیع شدہ فنڈ سہولت کے 6.6 ارب ڈالر کے پروگرام کے تحت پاکستان کیلئے 550 ملین ڈالر کے قرضے کی تیسری قسط کی منظوری دیدی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ملک میں معاشی بحالی شروع ہو گئی، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت ہوئی ہے، مارچ تک 550ملین ڈالر مل جائیں گے، ورلڈ بنک جلد 1ارب 70کروڑ ڈالر اور رواں ہفتے امریکہ اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں 352ملین ڈالر دے گا، اس رقم سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، معاشی صورتحال میں بہتری آئے گی۔ آئی ایم ایف نے کہا ہے پاکستان ایس آر او کے تحت دیئے گئے ٹیکس استثنیٰ کو ختم کرے۔ دوبئی میں آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے، عالمی امدادی فنڈ سے مارچ تک 550 ملین ڈالر ملنے کی امید ہے رواں ہفتے ہی کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 352 ملین ڈالر امریکہ کی جانب سے ملنے ہیں۔ ٹیکس اور انرجی ریفارم کے بعد ورلڈ بینک نے ایک ارب 70 کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ رقم مختلف منصوبوں میں استعمال کی جائے گی۔ 700 ملین ڈالر کراچی کے پاور پراجیکٹ اور 600 ملین ڈالر داسو پراجیکٹ کے لئے ہوں گے۔ عالمی اداروں اور امریکہ سے یہ رقوم ملنے کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا اور ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری آئے گی۔ پاکستان کی معیشت صحیح سمت میں ترقی کر رہی ہے۔ مختلف ڈونرز کو ایک کروڑ 90 کروڑ ڈالر واپس کئے جا چکے ہیں۔ ان چھ‘ سات مہینوں میں آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر لئے ہیں لیکن ہم نے 1.9 یعنی ایک ارب 90 کروڑ ڈالر واپس کئے ہیں۔ 800 ملین ڈالر اپنے پاس سے واپس کئے ہیں۔ آئی ایم ایف حکومتی کارکردگی سے مطمئن ہے‘ ملک میں معاشی استحکام کے لئے اہم اقدامات کر رہے ہیں‘ پیداوار بڑھانے کے لئے حکومت نے توانائی پالیسی کی منظوری دی ہے‘ غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کر دیا ہے‘ کمی پر قابو پانے کے لئے کوشاں ہیں‘ بجلی کے بلوں کی وصولی کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے‘ لائن لاسز پر قابو پانے کے لئے تقسیم کار کمپنیوں کو فعال بنا رہے ہیں۔ معاشی استحکام کے لئے اہم اقدامات کر رہے ہیں۔ مختلف شعبوں کو 151 ارب کی سبسڈی دے رہے ہیں۔ ملک میں توانائی بحران ہے۔ غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی بلکہ شیڈول کے مطابق کی جارہی ہے۔ کمی کے باوجود صنعت کو بجلی کی فراہمی یقینی بنا رہے ہیں۔ حکومت سستی بجلی کی فراہمی کے لئے سبسڈی دے رہی ہے۔ بجلی کی پیداوار اور صارفین کو فراہمی کی قیمت میں فرق موجود ہے۔ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لئے بجلی مہنگی نہیں کی گئی۔ موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ہی لوڈشیڈنگ کے معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ 4 سال میں 4500 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کریں گے۔ ستمبر تک گھریلو صارفین کیلئے لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی۔ سربراہ آئی ایم ایف جائزہ مشن جیفری فرینک نے کہا ہے کہ پاکستان کو دیئے گئے متعدد اہداف تکمیل کی جانب گامزن ہیں، پاکستان کے ساتھ قرضے کی فراہمی کا معاہدہ ہو گیا ہے، پاکستان میں اقتصادی ترقی 2.8 فیصد سے 3.1 فیصد ہونا خوش آئند ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بھی مستحکم صورتحال اختیار کر رہے ہیں۔ ٹیکس وصولی میں اضافہ پاکستان کے بجٹ خسارے میں کمی کر سکتا ہے، پاکستان پر نجکاری کیلئے دبائو نہیں ڈال رہے مگر یہ پاکستان کیلئے سودمند ہے۔ پاکستان کو سبسڈی جی ڈی پی کے ایک فیصد سے کم کرنا ہو گی۔ بیرونی ادائیگیوں کے حوالے سے پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔ پاکستانی روپے کی قدر خطے کے بیشتر ممالک کے مقابلے میں مستحکم ہے۔ آئی ایم ایف حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سٹیٹ بنک کے قوانین میں تبدیلی سے متعلق تجاویز دی ہیں۔ گورنر سٹیٹ بنک کو سیاسی دبائو سے آزاد کرنا ضروری ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ پاکستانی حکام سے مذاکرات مثبت رہے۔ پاکستان کی معیشت میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان کیلئے آئی ایم ایف پروگرام اپنے ٹریک پر ہے۔ پاکستان ایس آر او کے تحت دیئے گئے ٹیکس استثنیٰ کو ختم کرے۔ توانائی بحران کے خاتمے کیلئے درمیانی مدت کے پروگرام کی ضرورت ہے۔ ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنے یک ضرورت ہے، حکومت نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ اقتصادی شرح حوصلہ افزا ہے، ٹیکس کی وصولی جنوری میں 26 فیصد تک رہی ہے۔ توقع ہے کہ مارچ کے اختتام تک یورو بانڈ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ وہ مارچ اپریل تک بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر دے گا۔ ایس آر او کے تحت ٹیکس استثنیٰ آئندہ 3 سال میں ختم کر دیا جائے گا۔ جیفری فرینک نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی اقتصادی شرح نمو 2.8 فیصد سے 3.1 فیصد تک رہی جو خوش آئند ہے، قومی اداروں کی نجکاری کیلئے پاکستان پر دبائو نہیں ڈال رہے‘ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے، حکومت ٹیکس وصولیوں میں اضافہ کر کے بجٹ خسارہ کم کر سکتی ہے، حکومت پاکستان کو دیئے گئے متعدد اہداف تکمیل کی جانب گامزن ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب رہے‘ عالمی مالیاتی ادارہ موجودہ حکومت کی اقتصادی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن ہے، آئی ایم ایف جائزہ مشن ٹریول ایڈوائزری کی وجہ سے اسلام آباد نہیں آیا، حکومت پالیسی کے تحت قومی اداروں کی نجکاری کے لئے کام ہو رہا ہے ‘ پی آئی اے کے لئے اسٹریٹیجک پارٹنر تلاش کر رہے ہیں، چار سال کے دوران 4500میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل کریں گے، بجلی سمیت مختلف شعبوں کو 151 ارب روپے سبسڈی دے رہے ہیں۔ پاکستان اور آئی ایم ایف نے متوقع افراط زر کے حوالے سے مختلف آرا کا اظہار کیا ہے۔ جیفری فرینکس نے افراط زر کے حوالے سے سٹیٹ بنک کی جانب سے نگرانی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ مستقل بنیادوں پر قیمتوں میں اضافے کی شرح 6 سے 7 فیصد رہنی چاہئے۔ محصولات کی وصولی میں اضافے سے پاکستان بجٹ خسارے میں کمی کر سکتا ہے۔ اسحاق ڈار نے تسلیم کیا کہ افراط زر کی موجودہ شرح 7.9 فیصد میں اضافہ ہوا ہے تاہم اسے سنگل ڈیجٹ میں رکھا جائیگا۔ 2012ء میں جو خسارہ جی ڈی پی کا 9 فیصد تھا اسے 3.5 سے 4 فیصد تک لانے کی ضرورت ہے۔ پہلی ششماہی میں خسارہ 2.2 فیصد تھا۔ حکومت کفایت شعاری پروگرام پر گامزن ہے۔ سکیورٹی خدشات کے باعث آئی ایم ایف کی ٹیم اسلام آباد نہیں آئی اور یہ مذاکرات دوبئی میں ہوئے۔ دریں اثناء رقم کی کمی کے باعث فی الحال ایران گیس منصوبہ زیرالتوا رکھا گیا ہے