وزیراعظم، وزیراعلیٰ کے بیورو کریسی پر انحصار نے مسلم لیگ (ن) کو بے اثر کردیا
لاہور (فرخ سعید خواجہ) جماعت مسلم لیگ (ن) کے برسر اقتدار آنے کے بعد وزیراعظم ڈاکٹر محمد نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کے پارٹی کو نظرانداز کر کے سیاسی معاملات چلانے کیلئے بیوروکریسی پر انحصار نے عملاً حکمران جماعت کو کھوکھلا کردیا ہے۔ 11 مئی کے عام انتخابات کے 8 ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود پارٹی تنظیم میں آئینی اداروں مسلم لیگ (ن) کنونشن، مسلم لیگ (ن) کونسل، سنٹرل ورکنگ کمیٹی میں سے کسی ایک کا بھی اجلاس بلانے اور اس میں سیاسی معاملات زیرغور لانے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ پارٹی کی صوبائی اور ضلعی تنظیموں کی حالت بھی دگرگوں ہوچکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر سید غوث علی شاہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ چیئرمین راجہ محمد ظفرالحق اور سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا کے عہدے نمائشی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے تعاون سے 180 بلاک ایچ ماڈل ٹائون میں شریفوں کی سابق رہائشگاہ پر قائم کیا گیا وسیع و عریض مسلم لیگ (ن) کا مرکزی سیکرٹریٹ کارکنوں کیلئے شجر ممنوعہ بنا دیا گیا ہے۔ سرکاری پہریداروں کی موجودگی میں وہاں کسی پارٹی عہدیدار یا کارکن کا پیشگی اجازت حاصل کئے بغیر داخلہ ممکن ہی نہیں ہے۔ پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدور اور نائب صدور بھی کاغذی حیثیت کے مالک ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ضلع بہاولنگر کا صدر ڈاکٹر اختر لالیکا 11 مئی کے الیکشن کے دوران پارٹی چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں چلا گیا تھا جبکہ جنرل سیکرٹری حافظ محمود الحسن سعودی عرب میں کاروبار کر رہا ہے، عملاً بہاولنگر کی تنظیم یتیم ہو چکی ہے۔ ضلع شیخوپورہ کا صدر عارف سندھیلہ اور جنرل سیکرٹری کاشف ہے۔ صدر اور جنرل سیکرٹری میں ورکنگ ریلیشن شپ کا یہ عالم ہے کہ عہدیداران بننے کے بعد ضلع شیخوپورہ کی تنظیم کا کوئی اجتماعی اجلاس ہی منعقد نہیں ہوا ہے۔ ایسی ہی صورتحال دیگر اضلاع میں بھی ہے۔ پنجاب مسلم لیگ کے صدر وزیراعلیٰ شہباز شریف ہیں جبکہ جنرل سیکرٹری صوبائی وزیر راجہ اشفاق سرور ہیں۔ ان دونوں کو صوبے کے سیاسی معاملات چلانے کیلئے پارٹی ڈھانچے، عہدیداران یا کارکنوں کی بجائے بیورو کریسی کے ذریعے کام لینے کی عادت پڑ چکی ہے۔ پارٹی کے اجلاس سرکاری دفاتر 90۔ شاہراہ قائداعظم وغیرہ میں ہوتے ہیں جبکہ پارٹی سیکرٹریٹ کے علاوہ پارٹی کا مسلم ٹائون میں قائم صوبائی دفتر اجڑ چکا ہے البتہ دونوں جگہ چند ’’متولی‘‘ موجود ہیں جو پارٹی کا نشان سنبھالے ہوئے ہیں۔ پارٹی کے ونگز کی حالت بھی ابتر ہے، بہت سے ونگز تنظیمیں توڑے جانے کے بعد بحال نہیں ہو سکے۔ عہدے فروخت کرنے کے الزامات آئے روز سننے میں آتے ہیں۔ پارٹی کے سیکرٹری جنرل ظفر اقبال جھگڑا اس صورتحال کو کمال حوصلے سے برداشت کر رہے ہیں، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی عزت بچا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اقبال ظفر جھگڑا کے مطابق انکی وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات ہوئی ہے اور انکے ساتھ پارٹی تنظیم کی مضبوطی اور فعالیت کیلئے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا ہے لیکن عملاً پارٹی میں روح پھونکنے کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں، اقبال ظفر جھگڑا اسکا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ بلوچستان میں صدر سردار ثناء اللہ زہری اور جنرل سیکرٹری نصیب اللہ باروزئی میں اختلافات ہیں۔ خیبر پی کے میں صدر پیر صابر علی شاہ اور مرکزی نائب صدر امیر مقام میں اَن بن ہے۔ ان صوبوں میں بھی مسلم لیگ ن کی حالت پتلی ہو چکی ہے۔ دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کے صدر و وزیراعظم محمد نوازشریف اور سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا نے اتفاق کیا ہے کہ پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ کے ذریعے کارکنوں کے ساتھ رابطہ بنانا اہمیت کا حامل ہوگا اور کارکنوں و قیادت کے درمیان رابطہ مستحکم بنا کر ہی تنظیمی قوت میں اضافہ ممکن ہے، دونوں رہنمائوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ وزیراعظم نوازشریف جلد پارٹی کارکنوں سے ملاقاتیں شروع کریں گے تاکہ پارٹی کو فعال رکھ کر قومی سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا جا سکے۔ گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کی ویب سائٹ پر جاری ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف اور پارٹی سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔ اقبال ظفر جھگڑا نے کہا ہے کہ ملاقات میں تنظیم کی مضبوطی اور فعالیت کے حوالے سے مختلف تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ کے ذریعے کارکنوں کے ساتھ رابطہ مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کارکنوں اور قیادت کے درمیان رابطہ مستحکم بنا کر ہی تنظیم قوت میں اضافہ ممکن ہے۔ اقبال ظفر جھگڑا نے کہا کہ وزیراعظم بہت جلد پارٹی کارکنوں سے ملاقات کا سلسلہ شروع کریں گے اور پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کرینگے۔
مسلم لیگ (ن)