مشرف کے وکیل اور اکرم شیخ میں جھڑپ‘ سکول کالج کے بچے بھی ایسا نہیں کرتے : جسٹس فیصل
اسلام آباد (ایجنسیاں) غداری کیس کی سماعت کے دوران استغاثہ کے اکرم شیخ اور مشرف کے وکیل رانا اعجاز کے درمیان جھڑپ ہو گئی، عدالت نے کمرہ عدالت میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا سکول اور کالج کے بچے بھی ایسا نہِیں کرتے۔ اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ رانا اعجاز نے مجھ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ کر فیصلہ کریں گے، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ سکول اور کالج کے بچے بھی ایسا نہِیں کرتے، وکلاء عدالتوں کے افسر ہوتے ہیں۔ عدالتی وقار کا احترام کریں۔ مشرف کے وکلا نے سپیشل برانچ کے اہلکاروں کے خلاف خصوصی عدالت میں درخواست دائر کر دی۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اکرم شیخ کی ایماء پر سپیشل برانچ کے اہلکاروں نے گرفتار اور ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ اکرم شیخ کی اہلیہ کی خیریت دریافت کرنے پر انہوں نے ہنگامہ برپا کر دیا۔ مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے کہا کہ آج کے دن کا آغاز صحیح نہیں ہوا۔ وکلاء نے آپ کا موڈ خراب کر دیا اگر قاضی کا موڈ اچھا نہ ہو تو کیس نہیں سننا چاہئے، خصوصی عدالت سویلین ہے فوجی کا ٹرائل نہیں کر سکتی، آئین شکنی کا جرم اگر کسی فوجی سے ہو تو اس پر آرمی ایکٹ لاگو ہوتا ہے۔ آرٹیکل چھ کی خصوصی عدالت میں کارروائی صرف سویلین افراد تک محدود ہے۔ خصوصی عدالت ایکٹ 1976ء صرف نیشنل عوامی پارٹی اور ولی خان کے خلاف کارروائی کے لئے جاری ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تعزیرات پاکستان میں قتل کا جرم دفعہ 300 کے تحت ہے لیکن مقدمہ 302 کے تحت درج کیا جاتا ہے۔ یہ دفعہ جرم کی سزا کو بیان کرتی ہے، آرمی ایکٹ میں سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کی شق موجود ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ کسی سول عدالت میں نہیں چلایا جا سکتا۔ خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ 1977ء کے ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سنگین غداری کے جرم کو آرمی ایکٹ میں شامل کیا گیا ترمیم شدہ ایکٹ کے مطابق فوجی ملازم کا سنگین غداری میں کوئی اور عدالت ٹرائل کرنے کی مجاز نہیں تاہم مقدمے کی فوجی عدالت منتقلی کو ہرگز اعتراف جرم تصور نہ کیا جائے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اعتراف جرم اگر ملزم اپنی زبان سے بھی کرے تو عدالت احتیاط سے جائزہ لیتی ہے۔ خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 549 کی روح سے بھی فوجی ملزم کو کورٹ مارشل کے حوالے ہوتا ہے۔ مشرف کے خلاف موجودہ عدالت کی کاروائی بغیر کسی قانونی اختیار کے ہے حال ہی میں فوج کے تین جرنیلوں کو فراڈ کیس میں کارروائی کے لئے بحال کیا گیا تھا۔ جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا اس حوالے سے کسی نوٹیفکیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کی دفعہ 7 اور 8 کے تحت فوجی ملزم ازخود ٹرائل کے لئے بحال ہوتا ہے۔ فوجی عدالت تو زیادہ سخت ہوتی ہے قانون کا تقاضا نہ ہوتو کوئی پاگل ہی عام عدالت سے فوجی عدالت جائے گا۔ غداری کیس میں یہ تعین کرنا ضروری ہے کہ ملزم فوجی ہے یا سویلین۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ملزم فوجی ہے تو مقدمہ آرمی کورٹ کو منتقل کر دینا چاہئے۔ پراسیکیوٹر کا یہ جواب درست نہیں کہ پرویز مشرف آرمی ایکٹ کے تابع نہیں۔ پراسیکیوشن کا موقف بھی صحیح نہیں کہ فوج کی جانب سے مطالبے کے بغیر ملزم اس کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کے دائرہ اختیارکو چیلنج نہیں کر رہا بلکہ قانون کے تقاضے سے متعلق بتانا چاہتا ہوں۔ مقدمے سے متعلق فورم کا معلوم کرنا ضروری ہے۔ مشرف کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا 23 دسمبر کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا ہم اپنے اختیار سماعت کا فیصلہ آپ کی درخواست پر کریں گے۔ ثنا نیوز کے مطابق خالد رانجھا نے کہاکہ خصوصی عدالت سویلین عدالت ہے فوجی کا ٹرائل نہیں کر سکتی جبکہ جسٹس فیصل عرب نے خالد رانجھا سے مخاطب ہوتے کہا کہ آپ کے دلائل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جرم تو ہوا ہے خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ آئین شکنی کا جرم اگر فوجی اہلکار یا افسر کرے تو اس پر آرمی ایکٹ لاگو ہوتا ہے جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ آپ کے دلائل دینے کا مقصد یہ ہے کہ جرم تو ہوا ہے لیکن اس کا ٹرائل کسی اور کورٹ میں ہونا چاہئے خصوصی عدالت میں نہیں۔ اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ عدالتیں خواہشات پر فیصلے نہیں دیتیں۔
مشرف غداری کیس