بدانتظامی اور غیر ضروری بھرتیوں سے کرپشن ہوئی‘ نقصان پورا کرنے کیلئے حکومتی وسائل محدود‘ اداروں کی نجکاری واحد حل ہے : وزیراعظم
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) مشترکہ مفادات کی کونسل نے پاور سیکٹر کی ’’ڈسکوز اور جنکوز‘‘ کی نجکاری کا عمل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں 2011ء کی نجکاری اور پالیسی پر عمل کیا جائیگا۔ اجلاس میں تھرکول کان کنی منصوبے کیلئے ساورن گارنٹی فراہم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیاکہ مستقبل میں کوئلہ کی بنیاد پر تمام منصوبوں کیلئے ساورن گارنٹی دی جائیگی۔ اجلاس میں مردم شماری کرانے کی تجویز پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اس پر غور مؤخر کردیا گیا۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس وزیراعظم ڈاکٹر نوازشریف کی صدارت میں ہوا جس میں پنجاب‘ خیبر پی کے‘ بلوچستان اور سندھ کے وزراء اعلیٰ اور دوسرے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ مشترکہ مفادات کے کونسل کے اجلاس میں نیپرا کی کارکردگی پر عدم اطمینان ظاہر کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ادارے کے بارے میں تشخصی تجزیہ کرایا جائے گا تاکہ اس کی کارکردگی میں اضافہ کیا جائے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ سرکاری شعبے کی تمام کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز ارکان کی تعیناتی کرتے ہوئے صوبوں کے ساتھ مشاورت کی جائے تاکہ صوبوں کی نمائندگی کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔ اجلاس میں مشترکہ مفادات کی کونسل کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2012-13ء پیش کی گئی۔ اجلاس میں پاکستان انجینئرنگ کونسل (ترمیمی بل)2013ء کی منظوری دی گئی۔ آغاز حقوق بلوچستان کے تحت پی پی ایل‘ او جی ڈی سی ایل اور ایس ایس جی سی ایل کے 20فیصد شیئرز کی خریداری کے مسئلہ پر وزیراعظم نے ہدایت کی کہ فنانس ڈویژن صوبوں سے مشاورت کرے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اجلاس میں صوبوں کے ذمہ بجلی کے بقایا جات کے ایشوز پر تفصیلی غور کیا گیا۔ یہ تجویز کیا گیا تھا کہ صوبوں کے ذمہ تمام بقایا جات وزارت خزانہ کی طرف سے صوبوں کو منتقل کی جانے والی رقوم میں سے کاٹ لئے جائیں۔ اس معاملہ پر اختلاف رائے سامنے آیا جس پر وزیراعظم نے وزراء پانی و بجلی کو ہدایت کی کہ صوبوں سے ’’ایٹ سورس کٹوتی‘‘ کے اصولوں اور اس کے طریقہ کار کے بارے میں تمام صوبوں کے ساتھ اجلاس منعقد کئے جائیں۔ مشترکہ مفادات کے کونسل نے اتصالات کے ساتھ 800ملین ڈالر کے ایشو پر بات چیت کی۔ کونسل نے فیصلہ کیا کہ پی ٹی سی ایل کے نام جائیدادوں کی منتقلی کے عمل کو تیز کیا جائے گا تاکہ اتصالات سے پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے مد میں 800 ملین ڈالر وصول کئے جاسکیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کے پاس سرکاری تحویل کے اداروں کے نقصانات کو پورا کرنے کے لئے محدود وسائل ہیں۔ ماضی میں غیر ضروری بھرتیوں اور کرپشن کی وجہ سے ان اداروں میں بدانتظامی ہوئی۔ ان اداروں کی نجکاری واحد حل ہے۔گورنس اجتماعی ذمہ داری سے تمام صوبوں کو مساویانہ طورپر مل کر کام کرنا ہوگا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ڈسکوز اور جنکوز کی نجکاری کے لئے 2011ء کی پالیسی کو جاری رکھا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے لاکھڑا کول کی نجکاری کی تجویز کی بھی مخالفت کی۔ کونسل نے نیپرا کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ناقص کارکردگی کی وجوہات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا، مستقبل میں کوئلے کے منصوبوں کو خودمختار ضمانتیں دینے کی منظوری دی گئی، سرکاری کارپوریشنوں کے بورڈز ارکان کی تقرری پر صوبو ں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا، بجلی کے واجبات کے حوالے سے کٹوتیوں اور ادائیگیوں کے ضمن میں صوبوں سے مشاورت سے طریقہ کار وضع کرنے کی ہدایت کی گئی، پانچ سالہ قومی توانائی پالیسی کی توثیق کی گئی۔ دریں اثناء مشترکہ مفادات کونسل کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی مرحلہ وار نجکاری جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ ماضی میں غیر ضروری بھرتیوں اور بدانتظامی سے کرپشن ہوئی۔ تھرکول منصوبے کے لئے حکومتی گرانٹ دینے کی منظوری دی گئی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ قومی مفاد میں اداروں کی نجکاری واحد حل ہے۔ تھرکول منصوبے سے سستی بجلی پیدا ہو گی۔ گڈ گورننس وفاق اور صوبوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ سرکاری اداروں کو چلانے کیلئے وسائل محدود ہیں۔ اجلاس میں قومی توانائی پالیسی 2013-18ء کی منظوری دی گئی۔ اس سے قبل وزیراعظم ڈاکٹر نوازشریف کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل نے لاکھڑا پاور پراجیکٹ کی نجکاری کی منظوری دی۔ ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل نے فیصلہ کیا کہ سندھ حکومت بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں حصہ دار بن سکتی ہے۔ منی ایکس چینجرز کی خدمات پر عائد سیلز ٹیکس واپس لینے پر صوبوں نے اتفاق کیا۔ کونسل کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے لاکھڑا پاور پراجیکٹ کی نجکاری کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ لاکھڑا پراجیکٹ کی نجکاری سے ہزاروں افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔ نجکاری کی بجائے لاکھڑا پراجیکٹ سندھ حکومت کو دیا جائے۔ سندھ حکومت لاکھڑا پراجیکٹ کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلائے گی۔ قائم علی شاہ نے سندھ کے حصے کا پانی اسلام آباد کو دینے کی تجویز کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ کراچی کی دو کروڑ کی آبادی سمیت صوبے میں پانی کی کمی کا سامنا ہے سندھ کو ویسے ہی پانی کی کمی کا سامنا ہے ایسے میں ہمارے حصے میں کٹوتی زیادتی ہو گی۔ وزرائے اعلی نے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کی کامیابی اور اس حوالے سے فریقین کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ۔ وزرائے اعلی نے وزیر اعظم محمد نواز شریف کے فاٹا میں امن عمل کو موقع دینے کے اعلان کی حمایت کی ہے جب کہ وفاقی اور خیبر پی کے حکومتوں میں مذاکراتی عمل کے لئے مزید مشترکہ حکومتی معاونت پر مشاورت ہوئی۔ اس حوالے سے قریبی رابطوں پر اتفاق کیا۔ نواز شریف اور پرویز خٹک نے عزم ظاہر کیا کہ مذاکراتی عمل میں کسی قسم کا رخنہ پیدا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس ضمن میں سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر قومی جذبے کے تحت مفاہمت عمل کو آگے بڑھایا جائے گا۔ وزرائے اعلی نے امن کوششوں کے سلسلے میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اجلاس سے قبل وزیر اعظم محمد نواز شریف سے چاروں وزراء اعلی قائم علی شاہ ، پرویز خٹک ، ڈاکٹر عبد المالک اور شہبازشریف نے ملاقات کی۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے مشترکہ طور پر قوم سے قیام امن کے لئے ان کاوشوں کی کامیابی کے لئے دعا کی اپیل کی۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے قومی اداروں بالخصوص صوبہ سندھ میں بجلی کی تقسیم کار و پاور جنریشن کمپنیوں کی نجکاری، دریائے سندھ سے اسلام آباد کو پانی کی فراہمی کی تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ وفاقی حکومت سرکاری اداروں کی بہتری پر توجہ دے، آٹھویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت قومی محاصل سے سندھ کو حصے کے پورے پیسے دیئے جائیں، قائم علی شاہ نے کہا کہ بالخصوص صوبہ سندھ میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں و پاور کمپنیوں کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے برعکس وفاقی حکومت نے مطالبہ کیا کہ صوبے اپنے ذمے بجلی کے بل بروقت ادا کریں۔ اجلاس میں دریائے سندھ سے اسلام آباد کو پانی فراہم کرنے کی تجویز زیر غور لائی گئی جو وزیراعلیٰ سندھ کی مخالفت کے نتیجے میں منظور نہ ہو سکی۔