’’دولہا پر تشدد‘‘ متحدہ نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی، سندھ اسمبلی سے واک آؤٹ
کراچی (این این آئی+ آئی این پی) ایم کیو ایم نے اپنے کارکن فہد عزیز پر شادی کے روز پولیس کے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنانے کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی جبکہ متحدہ کے ارکان نے سندھ اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔ تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے بیرسٹر فروغ نسیم اور فہد عزیز کے والد عبدالعزیز کے ہمراہ فہد عزیز کی شادی کے روز گرفتاری اور پولیس حراست میں تشدد کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی چیف جسٹس جسٹس مقبول باقر اور جسٹس فاروق شاہ پر مشتمل دو رکنی بنچ کے روبرو دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت عالیہ فہد عزیز پر تشدد کرنیوالے اہلکاروں کیخلاف کارروائی ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات، ایس ایس پی ایلیٹ پیر محمد شاہ اور ایس ایچ او شاہ فیصل فہیم فاروقی کیخلاف مقدمہ درج کر نے اور فہد کے ورثاء کو ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دے۔ عدالت نے درخواست پر اٹارنی جنرل آف پاکستان، ایڈووکیٹ جنرل، ایڈیشنل آئی جی اور دیگر فریقین کو آج تک کا نوٹس جاری کر دیا۔ دریں اثناء سندھ اسمبلی میں گذشتہ روز متحدہ کے ارکان نے فیصل سبزواری کی قیادت میں فہد عزیز کی گرفتاری اور کارکنوں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں، انہیں لاپتہ کر دینے کیخلاف ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ متحدہ کے رہنما فیصل سبزواری نے قبل ازیں ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کراچی پولیس کی کارروائیوں کو تعصب پر مبنی حکومت کیخلاف نفرت پیدا کرنے اور ٹارگٹڈ آپریشن کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ کے کارکن فہد عزیز پر تشدد کرنیوالے پولیس حکام کیخلاف جب تک کارروائی نہیں ہوتی ایم کیو ایم احتجاج جاری رکھے گی جس پر جواب دیتے ہوئے وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ ایکشن کسی ایک جماعت کے خلاف ہے۔ آپریشن کا مقصد کراچی میں امن قائم کرنا ہے۔ ایڈیشنل آئی جی پولیس شاہد حیات ایک نڈر، بہادر اور ایماندار پولیس آفیسر ہیں ان کو کسی صورت ہٹایا نہیں جاسکتا۔ ایم کیو ایم کے دوستوں کے تمام گلے شکوے ہم بات چیت کے ذریعے حل کر لیں گے۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ یونیفارم پہن کر اگر چند پولیس اہلکار کوئی غلط کام کرتے ہیں تو پورے ادارے کو خراب نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے پولیس چیف، ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز کی ایک بہترین ٹیم ہیں۔ وہ دیانت داری کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک جماعت کے ٹارگٹ کلرز گرفتار ہوئے ہیں لیکن ان کی وجہ سے پوری سیاسی جماعت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور پولیس کی طرف سے کوئی تعصب نہیں کیا جارہا۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ کراچی میں خون کی ہولی کھیلنے والوں سے کراچی کو نجات دلائی جائے۔ اس کے لیے حکومت کو جس حد تک بھی جانا پڑا، وہ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جن پولیس افسروں نے 1992ء کے آپریشن میں حصہ لیا تھا، انہیں چن چن کر شہید کیا گیا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ انہیں کس نے شہید کیا۔ ان کے بچے جا کر کس سے انصاف مانگیں۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیو ایم کے کارکن کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے، حکومت اس کا ازالہ کرے گی۔ حکومت نے اس واقعہ کا نوٹس لیا ہے اور 4 پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے۔ ڈی آئی جی پولیس کی سطح پر انکوائری کرائی جا رہی ہے، جس کی رپورٹ عوام کے سامنے لائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مانٹیرنگ ٹیم کا مطالبہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا فورسز ایکشن سے پہلے اس ٹیم سے اجازت لیں کہ ہم آپریشن کرنے جارہے ہیں یا پھر کسی کو گرفتار کرکے ان کو سزا دینے یا نہ دینے کا عدالتی حق اس کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔