سیٹھی آئے۔ سری نواسن خوش ہوئے!
ذکاءاشرف کو ہٹا کر نجم سیٹھی کو چیئر مین بنانے پر مجھے انگلینڈ سے جیف بائیکاٹ نے ای میل کی ہے اور نجم سیٹھی کے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین مقرر کئے جانے پر مبارکباد دیتے ہوئے لکھا ہے کہ نجم سیٹھی نے برطانیہ میں بھی کھیل کی ترقی کے لئے بے پناہ خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی تقرری یقیناً میرٹ پر ہوئی ہے اور وہ اس اہم عہدے کے مستحق تھے۔ جیف بائیکاٹ نے پی سی بی کے پیٹرن انچیف کی کھیل دوستی اور دور اندیشی کی بھی تعریف کی۔ آسٹریلیا سے جیف لاسن نے بھی اپنی ای میل میں نجم سیٹھی کی تقرری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اسے ایک مدبرانہ فیصلہ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ نجم سیٹھی کی کرکٹ آسٹریلیا کے لئے بھی بے پناہ خدمات میں اور دور جدید کی کرکٹ میں آسٹریلیا کی کامیابیوں پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین کا بہت بڑا حصہ ہے۔ نیوزی لینڈ سے مارٹن کرو نے بھی اپنی ای میل میں نجم سیٹھی کی تقرری کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیوزی لینڈ کرکٹ کو ماضی میں درپیش انتظامی مسائل کے حل میں خاصی مدد دی تھی۔ جنوبی افریقہ سے جیک کیلس کی ای میل تھی۔ انہوں نے بھی ماضی کو یاد کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین کے تقرر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب جنوبی افریقہ بین الاقوامی کرکٹ نہیں کھیل رہا تھا اور پابندی کا شکار تھا اس برے وقت میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی نے کرکٹ سا¶تھ افریقہ کی بہت مدد کی اور ڈومیسٹک کرکٹ کو مضبوط بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ بھارت سے سری نواسن نے ای میل میں لکھا ہے کہ ہم نے ذکاءاشرف کو کہا تھا کہ ہماری حمایت کرو ورنہ تمہیں عبرت کا نشان بنادیں گے۔ ویسٹ انڈیز سے مائیکل ہولڈنگ ،سری لنکا سے رانا ٹنگا کی بھی ای میلز موصول ہوئی ہیں سب نے نجم سیٹھی کو چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ مقرر ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مبارکباد دی ہے اور اس فیصلے کو پاکستان کرکٹ کے لئے خوش آئند قرار دیتے ہوئے پیٹرن انچیف کرکٹ بورڈ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے کھیل دوست فیصلے اور کرکٹ سے محبت کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
آپ یقیناً مندرجہ بالا ای میلز پڑھ کر حیران ہوئے ہوں گے کہ نجم سیٹھی کو دنیا بھر سے مبارکبادیں مل رہی ہیں اور پیٹرن کے اس فیصلے کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے تو آپ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ کیا حقیقت میں ایسا بھی ہے۔ دنیائے کرکٹ میں نجم سیٹھی کا اتنا نام ہے تو پھر وزیراعظم نے درست فیصلہ کیا ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ یہ ای میلز فرضی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کرکٹ کے ساتھ ایک بھیانک مذاق ہوا ہے۔انگلینڈ تو دور کی بات پاکستان میں ڈھونڈنے سے بھی موصوف کی کوئی خدمت یا شمولیت کرکٹ میں نہیں ملتی۔ تاہم ان کا اس معاملے میں سب سے مضبوط حوالہ وزیراعظم صاحب کی پسند ہے۔ جس پر وہ پورا اترتے ہیں ہر کسی نے ذکاءاشرف کو ہٹانے پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں ایسے فیصلے کی امید تھی لیکن توقع نہ تھی کہ اتنی جلدی ہوگا لوگ وزیراعظم سے سیاسی سنجیدگی کی توقع کر رہے تھے۔ناقدین کو ذکاءاشرف سے محبت کے بجائے ملک کی کرکٹ سے محبت ہے۔ پاکستان کو اس وقت استحکام کی ضرورت تھی لیکن وزیراعظم میاں نواز شریف نے ذاتی پسند ناپسند کو ترجیح دی۔ افسوس میاں صاحب نے وطنیت کی سوچ کا پیغام نہیں دیا ۔ تنگ نظری کا مظاہرہ بھی کیا اور ایک ایسے شخص کو ملک کے مقبول ترین کھیل کی باگ دوڑ دی جو اسکی تاریخ اہمیت‘ کلچر اور اقدار سے شاید ہی واقفیت رکھتا ہو۔ آپ خود سوچیں احسان مانی اسلام آباد میں ہوتا توقیر ضیائ‘ خالد محمود‘ شہر یار خان لاہور‘ ڈاکٹر ظفر الطاف اسلام آباد اور عارف علی خان عباسی جیسے کرکٹ کے نامور اور کامیاب لیکن ان پر وزیراعظم کی نظرکرم نہیں ہوئی تو میرٹ‘ میرٹ اور صرف میرٹ کا نعرہ واضح ہو گیا! طلعت حسین کے ایک واقعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم فیصلہ کرچکے تھے کہ اپنے محبوب کو دوبارہ کرکٹ بورڈ میں لائیں گے۔فریحہ ادریس نے کہا ہے کہ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ عمران خان نے ذکاءاشرف کی تبدیلی کو ڈرامہ قرار دیا ہے۔ ذکاءاشرف نے کہا کہ بھارت کو خوش کرنے کےلئے فیصلہ کیا گیا ہے جو جمہوری حکومت کے ہاتھوں جمہوریت کا قتل ہے۔ وسیم اکرم نے بھی حالیہ واقعات کو مایوس کن قرار دیا ہے۔دنیا میں ہمارا تماشہ بنتا ہے تو ہم چیختے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ہم تماشے کا مواد اور موقع خود فراہم کرتے ہیں اور اس مرتبہ یہ موقع کسی اور نے نہیں وزیراعظم پاکستان نے دیا ہے وہ کتنے فیصد درست ثابت ہوئے ٰآئندہ بات ہو گی۔