آرمی ایکٹ کے دائرے میں آنے والے کا ٹرائل کوئی اور عدالت نہیں کر سکتی : وکیل مشرف
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) غداری کیس میں مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے کیس فوجی عدالت منتقل کرنے کی درخواست پر دلائل مکمل کر لئے۔ خالد رانجھا نے موقف اختیار کیا ہے کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر کا اقدام فوجی وردی میں کیا اس لئے یہ مقدمہ فوجی عدالت منتقل کیا جائے یہ کہنا درست نہیں کہ سنگین غداری کیس کی سماعت آرمی ایکٹ کے تحت نہیں ہو سکتی جبکہ پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے دلائل میں کہا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ آرمی ایکٹ کو 1977ء میں ہی کالعدم قرار دے چکی ہے۔ کالعدم قانون کا حوالہ دینا بھی توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے جبکہ دوران سماعت ایکس سروس مین سوسائٹی کی جانب سے کرنل (ر) انعام الرحیم نے پرویز مشرف کا کیس فوجی عدالت میں منتقل کرنے کے حوالہ سے فریق بننے کی درخواست دائر کر دی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ آرمی ایکٹ کے بارے میں عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔ خالد رانجھا نے کہاکہ مشرف کے خلاف کیس کو متعلقہ فورم میں بھیجا جائے۔ گزشتہ روز اگر میں نے کوئی جذباتی لفظ کہے ہوں تو ان پر معذرت خواہ ہوں۔ مجھے اپنی غلطی کا بعد میں احساس ہوا یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے، مقدمہ منتقلی کا یہ مطلب نہیں کہ جرم ثابت ہو گیا۔ سابق صدر کے خلاف کیس صرف فوجی عدالت ہی سن سکتی ہے، مشرف نے یہ اقدام اٹھایا اس وقت وہ آرمی چیف تھے، مقدمہ فوجی عدالت میں منتقلی رعایت نہیں قانونی تقاضا ہے۔ خالد رانجھا نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ کوئی ایسا شخص جو آرمی ایکٹ کے زمرے میں آتا ہو اس کا ٹرائل کوئی اور عدالت نہیں کر سکتی ہے۔ ان مقدمات کو فوجی عدالت کے ہی حوالہ کرنا پڑتا ہے خالد رانجھا نے 1977ء کے ترمیمی ایکٹ کا سہارا لیا اس میں کہا گیا ہے کہ سنگین غداری ایکٹ کے تحت ہونے والے جرائم بھی خصوصی عدالت سن سکتی ہے اس پر جسٹس طاہرہ صفدر نے کہا کہ اسی ایکٹ کی کلاز ٹو میں یہ بات لکھی ہے کہ اس کا اطلاق صرف وہاں ہو گا جہاں فوج کو سول اتھارٹی کی مدد کے لئے آرٹیکل 245 کے تحت بلایا گیا ہو ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے، مشرف کے معاملہ میں اس کا اطلاق کس انداز میں کریں گے۔ خالد رانجھا نے کہا کہ یہ حملے صرف ان افراد کے لئے ہیں جو غیرفوجی ہیں، خالد رانجھا اگر کوئی جرم ایک ہی وقت میں سول اور فوجی عدالت میں سماعت کے قابل ہو تو عدالت کے انتخاب کا اختیار ملزم کو ہوتا ہے۔ جسٹس طاہرہ صفدر نے ریمارکس دیئے کہ 1977 کے ترمیمی ایکٹ کی دفعہ ایک بار پھر پڑھ لیں اس ترمیم کا اطلاق صرف اس علاقہ پر ہو گا جہاں فوج سول انتظامیہ کی مدد کے لئے طلب کی جا سکتی ہے یہ شق صرف غیر فوجی افراد کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں لانے کے لئے ہے خالد رانجھا نے جواب دیا کہ فوجی اہلکاروں کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں لانے کے لئے ایسی تیسری شق کی ضرورت نہیں یہ کہنا درست نہیں کہ آرمی ایکٹ کے تحت سنگین غداری کے جرم کی سماعت نہیں ہو سکتی آرمی ایکٹ میں اس کی گنجائش رکھی گئی ہے جس ملزم کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوسکتی ہو اس کے خلاف سول عدالت کارروائی نہیں کر سکتی، پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے آرمی ایکٹ کو 1977ء میں ہی غیر آئینی قرار دیا تھا جب آرمی ایکٹ بنا اس وقت سنگین غداری کا جرم تھا ہی نہیں ان کا کہنا آرمی ایکٹ 1952 کے اجراء کے وقت سنگین غداری کا جرم تھا ہی نہیں اس لئے کسی قانون کے شیڈول میں اس کا ذکر بھی نہیں جو قانون غیرقانونی قرار دیا گیا اس کا حوالہ دینا بھی توہین عدالت ہے اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہو گا کہ غداری کا مقدمہ توہین عدالت میں آتا ہے کہ نہیں۔ 1999ء میں سپریم کورٹ کے 9رکنی بنچ نے بھی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے اس قانون کو کالعدم قرار دیا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس ایکٹ میں دوبارہ 2007ء میں ترمیم کی گئی اگر مان لیا جائے کہ یہ ترمیمی ایکٹ موجود ہے تو پھر اس میں دوبارہ ترمیم کیوں کی گئی اس ایکٹ میں 35دوسرے جرائم شامل کئے گئے لیکن صرف سنگین غداری کا جرم شامل نہیں کیا گیا ہے اور ترمیمی ایکٹ 1977ء مارشل دور کے لئے تھا خالد رانجھا کے دلائل جاری ہیں کہ کیس کی سماعت آج بدھ تک ملتوی کر دی گئی ہے۔