• news

ہڑتالیں اور کرفیو: مقبوضہ کشمیر 24 برس میں 5 سال سے زائد عرصہ بند رہا

سرینگر (بی بی سی) سخت کرفیو اور ہڑتال کے دوران منگل کی صبح سرینگر کے مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال میں دماغ کی نس پھٹنے سے 45 سالہ محمد لطیف کی موت ہوگئی۔ انکی 40 سالہ بہن تسلیمہ اپنے بھائی کی لاش کے پاس بے بسی کا مجسمہ بنی ہوئی تھیں۔ سب بند ہے، کوئی گاڑی نہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں ایمبولینس نہیں ملے گی۔ 9 فروری ہی سے حکومت نے عوامی مظاہرے روکنے کیلئے تین روزہ کرفیو کا اعلان کیا تھا کیونکہ مقبول بٹ اور افضل گورو کی برسیوں کے سلسلے میں  تعزیتی جلسے جلوس نکل رہے ہیں۔ گذشتہ کئی برس سے ہڑتال اور کرفیو کے دوران طبی عملے کی گاڑیوں اور ایمبولینس کو مشتعل نیم فوجی اہل کاروں یا پتھراؤ کرنیوالوں کے غیظ و غضب کا شکار بننا پڑا ہے۔ ہسپتال کے ایک اہل کار نے کہا اب ہم ایمبولینس نکالنے کا رسک نہیں لے سکتے۔ ایک بار تو فورسز اہل کاروں نے یہاں آ کر تشدد کیا۔ اس جیسے ہزاروں مسائل ہیں جن کا کشمیریوں کو سخت کرفیو اور سکیورٹی پابندیوں کے دوران سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی کی سرجری کیلئے تاریخ مقرر ہے تو سرطان کے کسی مریض کیلئے کیموتھیراپی طے ہے۔ لیکن کرفیو اور ناکہ بندی سے زندگی کیلئے ناگزیر کام بھی معطل ہوجاتے ہیں۔ جب حال یہ ہو، تو معاشی یا تعلیمی ضرورتیں آخری ترجیح بن جاتے ہیں۔ طے شدہ شادیاں ملتوی ہوجاتی ہیں اور سینکڑوں مسافر درماندہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کشمیری تاجروں کی انجمن فیڈریشن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے مطابق گذشتہ 24 برسوں کے دوران کل ملا کر دو ہزار دن تک کشمیر بند رہا۔ یہ پانچ سال سے زائد کا عرصہ بنتا ہے۔ چیمبر کے سابق صدر اور سول سوسائٹی کے کارکن شکیل قلندر کہتے ہیں مسلسل کرفیو اور بندش کی وجہ سے کشمیر کی معیشت کو خسارہ ہوا ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں اس کیلئے حکومت ہند براہ راست ذمہ دار ہے۔ قلندر کا کہنا ہے حالیہ دنوں یعنی نو سے 11 فروری تک افضل گورو اور مقبول بٹ کی برسیوں کے مواقع پر جو کرفیو نافذ کیا گیا اس کی وجہ سے کشمیر کی مجموعی معیشت کو دو سو کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ قلندر کہتے ہیں وہ اس سلسلے حریت پسند رہنمائوں میں بھی کئی مرتبہ ملے ہم نے ان کو بتایا کہ ہڑتال کی کال بظاہر ایک علامتی مظاہرہ ہے لیکن اس کا نقصان آزادی کے موقف کی سب سے زیادہ حمایت کرنے والے طبقے کو بْھگتنا پڑتا ہے۔ ہم نے ان کو سمجھایا کہ کس طرح بھارتی حکومت کے کارندے یہاں ہمارے قدرتی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور ہڑتال سے ان کا کام مزید آسان ہوجاتا ہے۔ بزنس ایڈمنسٹریشن کے ایک طالب علم مدثرنذیر کہتے ہیں کہ حکومت ہند امن و قانون پر قابو پانے کی آڑ میں کشمیریوں کو معاشی ترقی سے دْور رکھ رہی ہے۔ 1990ء میں جب یہاں مسلح شورش اور کرفیو کا ماحول تھا، تو وہ دور بھارت میں آزاد معیشت کے آغاز کا دور تھا۔ تب سے بھارت نے بے پناہ ترقی کی ہے، لیکن کشمیریوں کو اس ترقی کا حصہ بننے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یٰسین ملک نے مسلح جدوجہد کے پہلے ہی چار سال کے بعد یک طرفہ سیز فائر کا اعلان کرکے پرامن سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں اس یکطرفہ رعایت کے بعد میرے سینکڑوں ساتھیوں کو حراست کے دوران قتل کیا گیا۔‘

ای پیپر-دی نیشن