• news

مذاکرات کی کامیابی کیلئے پرامید‘ ہم بھی طالبان سے خوشخبری سننا چاہتے ہیں : مسئلہ کشمیر‘ بھارت کو مذاکرات پر راضی ہونا چاہیے : وزیراعظم

انقرہ (نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) وزیراعظم ڈاکٹر نوازشریف نے کہا ہے کہ فوج اور عوام طالبان سے مذاکرات کی مکمل حمایت کر رہے ہیں‘ طالبان سے مذاکرات کی کا میابی کیلئے پرا مید ہیں، ہم بھی طالبان سے خوشخبری سننا چاہتے ہیں‘ مذاکرات کے دوران دہشت گردی کی کارروائیاں بند ہونی چاہئے، طالبان نے بھی دہشت گردی کی کارروائیوں پر نوٹس لینے کی یقین دہانی کرائی ہے ‘ پاکستان کی سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا حکومت کی پالیسی ہے، ہم سب سے پہلے خود کو ٹھیک کرینگے، دہشت گردی کے سدباب کیلئے حکومتی کمیٹی کی کارکردگی تسلی بخش ہے‘ فائرنگ کا پتہ چلانے کیلئے ایل او سی پر میکنزم بننا چاہئے۔ یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کا خاتمہ اور امن کا قیام ہماری اولین تر جیح ہے، اسی لئے ہم نے مذاکرات کا عمل شروع کیا ہے۔ ہم نیک نیتی سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، ان مذاکرات کو فوج اور عوام کی  مکمل حمایت حاصل ہے، طالبان مذاکرات کی کا میابی اور امن کیلئے کوئی خوشخبری دینا چاہتے ہیں تو ہم بھی مذاکرات کی کامیابی کیلئے پْرامید ہیں اور خوشخبری سننا چاہتے ہیں۔  مذاکرات کے بعد دہشت گردی کی کارروائیاں بند ہونی چاہئیں۔ ہمیں طالبان نے بھی نوٹس لینے کی یقین دہانی کروائی، پاکستان افغانستان سمیت تمام ممالک سے اچھے اور دوستانہ تعلقات اور افغانستان میں جمہوری استحکام چاہتا ہے جو پاکستان کیلئے بھی بہتر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے اپنے معاملات ٹھیک کرینگے، افغانستان میں جمہوری استحکام پاکستان کیلئے بہتر ہے۔ حامد کرزئی چاہتے ہیں کہ طالبان سے بات کریں، مگر طالبان یہ نہیں چاہتے، افغان صدر پاکستان سے مدد کے خواہشمند تھے مگر ہم پہلے اپنے معاملات ٹھیک کرینگے۔ بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر کوئی میکنزم بنانا چاہتے ہیں، بھارت سے اہم ایشوز پر پیشرفت ہوئی ہے، ڈی جی ایم اوز کی میٹنگ میں طے پایا ہے کہ دونوں طرف سے گولہ باری نہیں ہو گی، ہم نے طے کیا تھا کہ اگر آئندہ ایسا ہوا تو پھر اس کی تہہ تک پہنچیں گے۔ ڈی جی ایم اوز کی میٹنگ کے بعد کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی درخواست کی تھی مگر بھارت مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لئے تیار نہیں، پاکستان مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے۔ بھارت کو کشمیر مسئلہ پر بات چیت کیلئے راضی ہونا چاہئے۔ گذشتہ 65سال سے مل رہے ہیں مگر مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو رہا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے صدر اوباما سے بھی بات ہوئی تھی۔ انہوں نے کہاکہ مستحکم افغانستان پاکستان کے استحکام سے مشروط ہے، پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہیں ہوگی، دہشتگردی کے سدباب کیلئے حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کی کارکردگی تسلی بخش ہے جو لوگ دھماکے کررہے ہیں طالبان نے اس کا نوٹس لینے کی یقین دہانی کرائی ہے، طالبان کی جانب سے پشاور حملوں سے لاتعلقی کا اظہار سامنے آیا ہے، حکومت طالبان سے مذاکرات آگے بڑھنے کی امید ہے، حکومت ملک میں امن وامان کی بحالی اور استحکام کو اولین ترجیح دیتی ہے، اس کیلئے اقدامات  کر رہی ہے، مذاکرات سبوتاژ کرنے والوں کو دیکھ رہے ہیں، مذاکرات کے حوالے سے ڈیڈلائن کا سوچنے سے پہلے اس عمل کی حمایت کی جائے۔ افغانستان میں جمہوری استحکام پاکستان کیلئے بہتر ہے، مگر طالبان نہیں چاہتے۔ چاہتے ہیں افغانستان میں انتخابی عمل پْرامن ہو، افغان صدرپاکستان سے مددکے خواہشمند تھے لیکن ہم پہلے اپنے معاملات ٹھیک کریں گے۔ ملابرادرکورہاکردیا ہے اب یہ افغانستان کامعاملہ ہے، ہمارے کچھ لوگ پکڑے گئے توافغانستان سے انہیں رہاکر دیا تھا، بھارت سے اہم امورپرپیشرفت ہوئی ہے، پاکستان مسئلہ کشمیرکا حل چاہتا ہے، اقوام متحدہ سے کشمیر پر ثالثی کاکردار اداکرنے کے لئے کہا۔ بھارت کومسئلہ کشمیر پر بات چیت کیلئے راضی ہونا چاہئے ۔ دریں اثناء ترک صدر عبداللہ گل نے وزیراعظم محمد نوازشریف اور افغان صدر حامدکرزئی کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔این این آئی کے مطابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے مذاکرات سے پہلے دہشتگردانہ کارروائیاں بند کرنیکا مطالبہ کیا اور کہا کہ ڈیڈلائن کا سوچنے سے پہلے مذاکرات کو سپورٹ کیا جائے۔ 65سال سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوا،  ثالثی بہتر ہوگی۔ افغان صدر حامد کرزئی نے بلوچستان میں عدم مداخلت کا یقین دلایا ہے، پھر بھی معاملات پر نظر رکھیں گے، طالبان سے مذاکرات آگے  بڑھنے کی امید ہے۔ خواہش ہے افغانستان میں انتخابات پرامن ہوں۔ ذرائع کے مطابق عشائیہ کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے درمیان افغانستان کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

اسلام آباد + انقرہ (آن لائن) پاکستان‘ افغانستان اور ترکی کا سہ فریقی اجلاس آج ترکی کے شہر انقرہ میں ہوگا۔ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم ڈاکٹر محمد نواز شریف کریں گے۔ وزیراعظم اپنی اہلیہ سمیت تیس رکنی وفد کے ساتھ انقرہ پہنچ گئے ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف‘ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام‘ وفاقی وزراء اسحاق ڈار‘ خواجہ آصف‘ مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور معاون خصوصی طارق فاطمی  بھی شریک ہیں۔ اجلاس کا موضوع ’’ایشیا کے دل میں امن ہے‘‘ کے نام سے ہے۔ آرمی چیف ترکی کے ہم منصب جب کہ ڈی جی آئی ایس آئی اپنے ترک اور افغان ہم منصبوں سے ملاقات کریں گے۔ وزیراعظم نواز شریف ترکی کی آٹھ بڑی کمپنیوں کے سربراہوں سے بھی ملاقات کریں گے۔ وزیراعظم دورے کے دوران ایک روز انقرہ اور ایک روز استنبول میں بھی قیام کریں گے۔ وزیراعظم صدر عبداللہ گل اور ترک ہم منصب طیب رجب اردگان سے بھی ملاقات کریں گے۔ دوسری جانب افغان صدر حامد کرزئی بھی سہ فریقی اجلاس میں شرکت کیلئے افغانستان سے ترکی پہنچ گئے ہیں۔ کانفرنس میں اہم پیشرفت متوقع ہے امید ظاہر کی جارہی ہے کہ افغانستان میں پاکستان اہم کردار ادا کرے گا۔ یاد رہے تینوں ممالک کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کا آغاز 2007ء میں ہوا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف کے دورے کا مقصد افغانستان میں استحکام کے عمل کی کوششوں کو مزید موثر بنانا ہے۔  دفترخارجہ کے مطابق آٹھویں سہ فریقی سربراہی کانفرنس 12سے 14فروری تک جاری رہے گی۔  کانفرنس کا مقصد رکن ممالک کے درمیان سکیورٹی اور اقتصادی تعاون کو علاقائی سطح پر مزید فروغ دینا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کانفرنس میں افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات بھی کریں گے، جب کہ طالبان سے مذاکرات اور خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال پر تبادلہ خیال بھی کیا جائے گا۔ وزیراعظم نوازشریف ترکی کے 3 روزہ سرکاری دورے پر جب انقرہ پہنچے تو  ترک وزیر برائے ماحولیات و شہری منصوبہ بندی ادریس گلوسی، ترک گرینڈ نیشنل اسمبلی میں پاک ترک پارلیمانی فرینڈ شپ کے چیئرمین برہان کھایا ترک اور دیگر اعلیٰ حکام نے انقرہ ایزن بوگا ائرپورٹ پر ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ وزیراعظم نوازشریف افغان صدر حامد کرزئی اور ترک صدر عبداللہ گل کے ہمراہ افغانستان، پاکستان، ترکی آٹھویں سہ فریقی سربراہ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ سہ فریقی سربراہ اجلاس کا عمل افغانستان میں امن و استحکام کے فروغ کیلئے تینوں برادر ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے سیاسی مذاکرات، سکیورٹی تعاون اور ترقیاتی شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کیلئے ایک منفرد پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔  چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ مفتاح اسماعیل احمد، ارکان پارلیمنٹ اور دیگر اعلیٰ عسکری و سول حکام بھی وزیراعظم کے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف استنبول کا بھی دورہ کریں گے جہاں وہ ممتاز ترک کاروباری شخصیات و سرمایہ کاروں سے ملاقات کریں گے۔ 

ای پیپر-دی نیشن