ڈرون حملوں کیخلاف مہم چلانے والے لاپتہ کریم خان کو 20 فروری کو پیش کیا جائے: لاہور ہائیکورٹ
راولپنڈی (بی بی سی) لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے لاپتہ صحافی اور کارکن کریم خان کو 20 فروری کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ کریم خان کو پانچ فروری کو تقریباً 20 نامعلوم مسلح افراد نے ان کے گھر سے اغوا کیا تھا۔ کریم خان کے خاندان کا کہنا ہے کہ ان میں سے بعض نے پولیس یونیفارم پہنی ہوئی تھی۔ کریم خان کے وکیل شہزاد اکبر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ گزشتہ روز عدالت میں تھانہ نصیرآباد کے ایک پولیس اہلکار نے عدالت کو کریم خان کی گمشدگی کی ایف آئی آر پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ نامعلوم افراد کے پاس پولیس کی گاڑیاں بھی تھیں۔ کریم خان کے وکیل کے بقول اہلکار نے عدالت کو بتایا کہ کریم ان کی تحویل میں نہیں ہیں۔ اس پر شہزاد اکبر نے شک کا اظہار کیا کہ کریم خان کو خفیہ ایجنسیوں نے اٹھایا ہے۔ عدالت نے وزارتِ داخلہ کے ذریعے خفیہ ایجنسیوں کو کریم خان کو 20 فروری کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ پولیس حکام نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ کریم خان پولیس کی حراست میں نہیں۔ اغواء کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ واضح رہے کریم خان ڈرون حملوں کے خلاف 15 فروری کو برطانوی، جرمن اور ولندیزی ارکانِ پارلیمان سے بات کرنے جا رہے تھے۔ دسمبر 2009 میں کریم خان کے ایک بیٹے اور بھائی شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے میں مارے گئے تھے اور انہوں نے 2010 میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ کریم خان نے حکومتِ پاکستان کے خلاف بھی اپنے بھائی اور بیٹے کی ہلاکت کی تحقیق نہ کرنے پر قانونی کارروائی شروع کی تھی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف مہم چلانے والا لاپتہ کارکن کہاں ہے، اس بارے میں جلد تعین کیا جائے۔ تنظیم کے جاری کردہ ایک بیان میں مبینہ طور پر شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے کریم خان کی راولپنڈی سے نامعلوم مقام پر منتقلی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایشیائی خطے کی ڈپٹی ڈائریکٹر ازیبل ایراڈون نے کہاکہ ہمیں تشویش ہے کہ انسانی حقوق کے کارکن کریم خان کا غائب ہو جانا شاید اسے بیرون ملک امریکی ڈرون حملوں پر بیان سے روکنے کے لئے ہو۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی عہدیدار نے کہاکہ کریم خان کی گمشدگی پاکستان میں پائے جانے والے ایک پریشان کن رجحان کو اجاگر کرتی ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے والوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس تشویش کو بھی کہ پاکستان حکومت ممکنہ طور پر امریکی ڈرون حملوں کے پروگرام میں شریک ہے۔