• news

پاکستانی خواتین کھلاڑیوں کو ٹینس میں سہولیات کا فقدان

عنبرین فاطمہ
’’ٹینس‘‘ کا شمار دنیا کے مقبول ترین کھیل میں ہوتا ہے اس کے مقابلے سارا سال کہیں نہ کہیں جاری رہتے ہیں۔پاکستان میں بھی اس مقبولیت کچھ کم نہیں ہے لڑکے لڑکیوں میں یہ کھیل یکساں طور پر مقبول ہے لیکن بدقسمتی سے سہولیات اور حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ہم نہ تو اپنے دستیاب کھلاڑیوںکی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور نہ ہی کھیل کے فروغ کیلئے کچھ مثبت کام کیا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی ٹینس کھیلنے والے اکثر کھلاڑی اپنی مدد آپ کے تحت شوق کی تکمیل کرتے ہیں۔ابھی تک جتنی بھی خواتین کھلاڑی اس کھیل میں نمایاں کامیابی حاصل کر سکی ہیںان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ان میں اعصام الحق کی والدہ نوشین احتشام ،ندا وسیم اور رحیم سسٹرز کے نام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ٹینس کے چند ایک خاندان ایسے ہیں جن کی خواتین نے اس کھیل کوزندہ رکھا ہوا ہے موجودہ دور میں بھی ٹینس چند کھلاڑیوں کے گرد گھوم رہی ہے۔اگر ہم بین الاقوامی سطح پر اس کھیل میں اپنے ملک کا نام روشن کرنے والی کھلاڑیوں کا ذکر کریں تو اشنا سہیل،سارا منصور،سارا محبوب اور صبا عزیز کے علاوہ کوئی خاص نام ذہن میں نہیں ابھرتا ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک میں ابتر صورتحال کی وجہ سے کئی کھلاڑی بیرون ملک منتقل ہو چکی ہیں۔ہماری بد قسمتی ہے کہ پاکستان میں اس کھیل کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔مردوں کے بعد یہ کھیل خواتین میں بھی زوال پذیر ہے اور اس کا مستقبل مخدوش دکھائی دیتا ہے۔کھیلوں کو فروغ دینے کیلئے سکول اور کالج کی سطح پر پذیرائی بہت ضروری ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاںسکول اور کالج دونوں سطح پر اس کھیل کو بچوں میں فروغ دینے کیلئے کسی قسم کے اقدامات نہیں کئے جاتے ہیں اس کھیل کو حکومتی سرپرستی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہماری خواتین دیگر ملکوں کی نسبت ٹینس کے کھیل میں پچھلی صفوں پر کھڑی نظر آتی ہیں ۔ملک بھر میںچند ہی ایسے مقامات ہیں جہاں یہ گیم کھیلی جاتی ہے۔اس کھیل میں مستقبل بنانے اور بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کا نام روشن کرنے کیلئے خواتین کھلاڑیوں کے پاس سہولیات کا فقدان ہے ان کے لئے الگ سہولیات کا کوئی تصورسرے سے ہی موجود نہیں ہے۔اس کھیل کو کھیلنے کیلئے مخصوص قسم کا لباس زیب تن کرنا پڑتا ہے۔اور ہماری سوسائٹی میں اس قسم کا لباس قابل قبول نہیں ہے ۔پوری دنیا میں خواتین ٹینس کے اس مخصوص لباس کو پہن کر کھیل کا مظاہرہ کرتی ہیں ان خواتین کو اتنے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جبکہ ہمارے ہاں خواتین کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہمسایہ ملک بھارت ہم سے ہر لحاظ سے کافی آگے ہے لیکن وہاں پر بھی ثانیہ مرزا کو اس لباس کو لیکر خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوںنے ہمت نہیںہاری ان کی فیملی نے ان کو سپورٹ کیا اور انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اگر ہم یہ کہیں کہ ثانیہ مرزا اس وقت دنیائے ٹینس میں رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں اوران کی کامیابیوں نے خواتین کوایک نئی راہ دکھائی ہے تو یہ بے جا نہ ہوگا۔ٹینس ایک مہنگا کھیل ہے اس کا سامان بھی خاصا مہنگا ہے جس میں ریکٹ اور بالز شامل ہیں اس وقت ایک عام ریکٹ کی قیمت پانچ ہزار تک پہنچ چکی ہے یوںحکومت اور فیڈریشن کے تعاون کے بغیر ٹینس کی سرگرمیاں جاری رکھنا کھلاڑیوںکیلئے ممکن نہیں رہا۔ہمارے ہاں اس کھیل کو خواتین میں فروغ دینے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔اسی حوالے سے ہم نے’’اُشنا سہیل‘‘ ٹینس پلئیر سے بات کی اُشنا نے بارہ برس کی عمر میں ٹینس کھیلنی شروع کی سات مرتبہ ویمن کا نیشنل ٹائٹل اپنے نام کر چکی ہیں۔25ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھتی ہیں۔اُشنا نے کہا کہ پاکستان میں اس کھیل میں خواتین کا مستقبل مایوس کُن ہے۔میں جتنی مرتبہ بھی باہر کھیلنے کے لئے گئی اس میں میرے والدین کی کوششیں ہیں انہوں نے میری ہر موڑ پر حوصلہ افزائی کی والدین بھی ایک حد تک سپورٹ کر سکتے ہیں۔گورنمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے خواتین کے لئے الگ ٹینس سٹیڈیم تعمیر ہونا چاہیے جہاں کھلاڑیوں کو بلا معاوضہ کوچنگ اور ٹریننگ کی سہولیات میسر ہوں۔انہوں نے کہا کہ خواتین میں کھیل کے فروغ کیلئے پاکستان ٹینس اور فیڈریشن کو مزید کوششوں کی ضرورت ہے اگر ایسا ہوجائے تو کوئی وجہ نہیں یہ کھیل خواتین میں مقبول نہ ہو۔ہمارے ہاں والدین بھی اس کھیل کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ بچوں میں اس کھیل کو کھیلنے کا جذبہ نہیں پایا جاتا۔2011ء میں 11برس کے بعد پاکستانی ٹیم نے فیڈ کپ میں حصہ لیا اور مجھے اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اس ایونٹ میں نہ صرف شرکت کی بلکہ دو میچز میں کامیابی بھی حاصل کی ۔ہماری چند ایک ٹینس کھلاڑی ایسی ہیں جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کا نام روشن کیا ان میں سارا منصور،صباء عزیز کے نام قابل ذکر ہیں باہر کے ملکوں میں جا کر کھیلنے سے کھلاڑیوں کا نا صرف مورال بلند ہوتا ہے بلکہ مقابلے کی دوڑ میں آگے نکلنے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن