وزیراعظم کے حکم پر حکومتی ٹیم کا ملنے سے انکار‘ بات چیت جاری رکھی جائے : طالبان کمیٹی
اسلام آباد+ لاہور (وقائع نگار خصوصی+ نمائندہ خصوصی+ خصوصی رپورٹر) طالبان کی تحویل میں 23 ایف سی اہلکار قتل کئے جانے کے واقعہ کے بعد حکومتی اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان مذاکراتی عمل کو تیسرے ہفتے میں سخت دھچکا لگا ہے۔ حکومتی اور طالبان مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان جاری مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہو گیا۔ وزیراعظم ڈاکٹر نواز شریف نے کہا ہے کہ مذاکراتی عمل کی آڑ میں سکیورٹی فورسز کے قتل کی اجازت نہیں دی جا سکتی، مزید دہشت گردی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ وزیراعظم کی ہدایات کے بعد مذاکرات کیلئے قائم حکومتی کمیٹی نے اکوڑہ خٹک میں طالبان کمیٹی سے ملاقات سے انکار کر دیا ہے اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹی سے طے شدہ مذاکرات منسوخ کردئیے گئے اور فوری طور پر دونوں کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کا کوئی امکان نہیں۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے آئندہ لائحہ عمل طے کرنے کیلئے آج ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ’’موجودہ صورتحال میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ معاملات درست سمت میں نہیں بڑھ رہے‘‘ امن مذاکرات کیلئے طالبان کمیٹی کے کوآرڈینیٹر مولانا یوسف شاہ نے اہلکاروں کے قتل کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ جب سے مولانا سمیع الحق نے یہ خبر سنی ہے وہ سو نہیں سکے۔ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے احساسات حکومتی کمیٹی کے احساسات سے کسی طرح مختلف نہیں لیکن حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے بغیر مشاورت اجلاس ملتوی کرنا مایوس کن ہے۔ ذرائع کے مطابق سیاسی و عسکری قیادت نے اس سنگین نوعیت کے واقعہ کا سخت نوٹس لیا اور طالبان سے مزید مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عسکری قیادت نے شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اور کسی وقت بھی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا جاسکتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کیلئے فوج آپریشن کرنے کیلئے پوری طرح سے تیار کھڑی ہے۔ کسی وقت بھی بھرپور کارروائی شروع کرنے کی ہدایات جاری ہوسکتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق 23 ایف سی اہلکاروں کے قتل کے سنگین واقعہ کے بعد اتوار کو رات گئے اعلیٰ سول اور عسکری قیادت کا غیرمعمولی اجلاس ہوا جس میں دہشت گردی کے اس واقعہ سے پیدا ہونیوالی صورتحال پر غور کیا گیا۔ اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت اس نتیجے پر پہنچی کہ ’’بہت ہو چکا‘‘ (enough is enough)۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ فوجی آپریشن کے دوران دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر زمینی کے علاوہ فضائی حملوں کا امکان ہے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی نے اپنے بیان میں کہا کہ ایف سی کے 23 مغوی اہلکاروں کی شہادت کے واقعہ کے فوراً بعد اس طرح کا اجلاس بے مقصد ثابت ہو گا۔ مذاکراتی کمیٹی نے اتفاق رائے سے اس واقعہ کو افسوسناک اور قابل مذمت قرار دیا۔ مذاکراتی عمل کے دوران پے در پے اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات پر انتہائی منفی اثرات ڈال رہا ہے۔ قوم ہم سے فوری مثبت نتائج کی توقع رکھتی ہے تاکہ وطن عزیز کو کئی سال سے جاری خونریزی سے نجات ملے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے کمیٹی کے ارکان کو فوری طور پر طالبان کمیٹی سے جاری مذاکراتی عمل روکنے کی ہدایت کی۔ ایف سی کے 23 جوانوں کی طالبان کے ہاتھوں شہادت کے واقعہ کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے دو ارکان عرفان صدیقی اور میجر (ر) محمد عامر نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے ہنگامی ملاقات کی اور اس المناک واقعہ کے مذاکرات پر پڑنے والے اثرات کے حوالے بات چیت کی۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ ہمارے بچوں کی جانیں بہت قیمتی ہیں۔ دہشت گردی کو مزید برداشت نہیں کیا جائیگا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق دہشت گردی کے واقعات سے امن عمل بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ مذاکرات پر کون کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے اسکا طالبان کو اب نوٹس لینا پڑیگا یہ ان کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ وزیراعظم ڈاکٹر نوازشریف نے ایف سی اہلکاروں کے قتل کو سنگین اور بہیمانہ جرم قرار دیتے ہوئے واقعے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ ایسے واقعات معاملے کے پرامن حل کیلئے شروع کئے گئے مذاکرات پر نہایت منفی اثرات ڈال رہے ہیں۔ وزیرا عظم نے شہداء کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ اب پاکستان اس طرح کی خونریزی کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا، ہم نے سنجیدگی اور نیک نیتی سے اے پی سی کے فیصلے کی روشنی میں مذاکرات کا عمل شروع کیا لیکن جب بھی حوصلہ افزا موڑ پر پہنچے تو اس عمل کو سبوتاژ کر دیا گیا۔ یہ نہایت افسوسناک صورتحال ہے جس پر پوری قوم کو دکھ ہے حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ارکان عرفان صدیقی اور میجر (ر) عامر نے وزیراعظم سے ملاقات کی۔ حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کے باوجود 23 ایف سی اہلکاروں کے قتل پر حکومت اور عسکری قیادت نے طالبان سے مزید مذاکرات نہ کرنے اور دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کیلئے بھرپور تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیرستان میں فوجی دستے آپریشن کیلئے پوری طرح سے تیار ہیں اور گرین سگنل کے ملتے ہی دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ وزیراعظم نے ہدایات جاری کیں کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے۔ قومی سلامتی اور مفاد پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مذاکرات کے باوجود دہشت گردوں کی جانب سے ملک بھر میں جاری دہشت گردی کی کارروائیوں اور سکیورٹی اہلکاروں کے قتل کے باعث فوجی کارروائی کسی صورت نہیں روکی جائے گی۔ فوجی آپریشن دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر زمینی اور فضائی حملے کئے جائیں گے۔ شمالی وزیرستان میں تعینات پاک فوج کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ گرین سگنل ملتے ہی دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو بھرپور طریقے سے نشانہ بنایا جائے۔ حکومت نے دہشت گردوں کے ہاتھوں ایف سی اہلکاروں کی شہادت کو انتہائی سنجیدگی سے لیا اور کہا کہ مذاکراتی عمل کی آڑ میں ہم سکیورٹی فورسز کے قتل کی اجازت نہیں دے سکتے۔ دہشت گردوں نے اپنے منفی ہتھکنڈوں سے ہماری امن کیلئے کوششوں کوناکام بنانے کی کوشش کی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم 23 ایف سی اہلکاروں کی شہادت کی وجہ سے انتہائی غم و غصے سے دوچار تھے۔ وزیر اعظم اور کمیٹی کے ارکان نے اس واقعہ پر سخت دکھ اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اسے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی سازش قرار دیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے کمیٹی کے ارکان کو فوری طور پر طالبان کمیٹی سے جاری مذاکراتی عمل روکنے کی ہدایت کی اور کہا کہ طالبان کمیٹی کی یقین دہانیوں کے باوجود مسلسل منفی اقدامات کئے جا رہے ہیں ،کراچی کے واقعہ کے بعد ایف سی اہلکاروں کا بہیمانہ قتل کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نواز شریف نے کہا جان بوجھ کر مذاکراتی عمل کو ناکام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے لئے سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عرفان صدیقی نے وزیراعظم کو بتایا کہ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس آج بلایا جاچکا ہے جس میں تمام تر صورتحال کا جائزہ لے کر کمیٹی حتمی اور دو ٹوک فیصلہ کریگی۔ اطلاعات کے مطابق حکومتی کمیٹی کی طالبان کی جانب سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی سے ملاقات آخری لمحوں میں مؤخر کی گئی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے حکومتی کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی کو ایف سی اہلکاروں کے قتل کے بعد رابطہ کر کے ملاقات سے روکدیا اور عرفان صدیقی نے ٹیلیفون کے ذریعے رابطہ کر کے طالبان کمیٹی سے ملاقات سے معذرت کر لی۔
لاہور+ اکوڑہ خٹک (خصوصی نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) طالبان کمیٹی کے ارکان نے حکومتی کمیٹی کو مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف سی اہلکاروں کے قتل سے پہلے جنگ بندی معاہدے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ افسوس حکومتی کمیٹی نے ہمیں بھی طالبان سمجھا، ایسے وقت مشاورت ملتوی کرنے کے بجائے سرجوڑ کر مل بیٹھنا فرض عین بنتا ہے، موجودہ حالات میں بہت سے ہاتھ ملوث ہیں، ہم طالبان کادفاع نہیں کرسکتے کئی سوالوں کا جواب نہیں، طالبان کمیٹی ثالث کی حیثیت برقرار رکھنا چاہتی ہے، ہمیں فریق نہ بنایا جائے مقتدر قوتوں کا سب کو پتہ ہے اس حوالے سے کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے، مذاکراتی عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے تو ہمیں بحث میں نہ الجھایا جائے ۔ طالبان کمیٹی کا اجلاس مولانا سمیع الحق کی زیرصدارت اکوڑہ خٹک میں ہوا جس میں پروفیسر ابراہیم اور یوسف شاہ نے شرکت کی۔ اجلاس میں طالبان کی جانب سے ایف سی اہلکاروں کے قتل کے واقعہ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیاگیا۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کمیٹی کے رابطہ کار مولانا یوسف شاہ نے اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس میں کہاگیا ہے کہ 17 فروری کو حکومتی اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس اکوڑہ خٹک میں ہونا تھا۔ آخری وقت میں جب طالبان کی قائم کردہ کمیٹی کے رابطہ کار یوسف شاہ نے حکومتی کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ موجودہ حالات میں ہماری کمیٹی کے ارکان کی رائے یہ ہے کہ اجلاس نہیں ہونا چاہئے ۔ اعلامیے میں کہاگیا ہے کہ ہماری نظر میں طالبان کمیٹی کی حیثیت ثالث بالخیر کی ہے حکومتی کمیٹی کو بھی ہماری حیثیت تسلیم کرنی چاہئے ہم خود کو حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے الگ نہیں سمجھتے لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسا دوسری بار ہو رہا ہے۔ 4 فروری کو دفتر جماعت اسلامی اسلام آباد میں دونوں کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس ہونا تھا طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق گھنٹوں کا سفر طے کرکے اسلام آباد پہنچے تو آخری لمحے میں عرفان صدیقی نے فون پر بتایا کہ ہماری کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ آج اجلاس میں شرکت نہیں کرینگے اور اب ایک بار پھر عرفان صدیقی نے بتایا کہ حکومتی کمیٹی اکوڑہ خٹک نہیں آرہی۔ مولانا یوسف شاہ نے کہاکہ ہمیں بھی مہمند ایجنسی واقعہ پر افسوس ہے دونوں کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس ہوتا تو مل کر تحقیقات کرنے اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام و ملک میں امن کی بحالی کیلئے سرجوڑ کر بیٹھتے۔ افسوس ہے حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے ہمیں طالبان قرار دے کر ملاقات ملتوی کردی ایسے وقت مشاورت ملتوی کرنے کے بجائے سرجوڑ کر مل بیٹھنا فرض عین بن جاتا ہے۔ بعض ٹی وی چینلوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ حکومت اور فوج نے آپریشن کا فیصلہ کرلیا ہے ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ گزشتہ دس سال میں کسی آپریشن کا مثبت نتیجہ نہیں نکلا آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ بچے ٗ خواتین اور بوڑھے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہزاروں افراد دونوں جانب سے لقمہ اجل بنیں گے ٗ سینکڑوں بستیاں اجڑیں گی پورے ملک میں دہشت گردی کی شدید ترین لہر اٹھے گی، بڑا جانی و مالی نقصان ہوگا۔ کل تک ہم جنگ بندی کے مرحلے میں نہایت قریب پہنچ چکے تھے ، مشترکہ اجلاس میں حالیہ واقعات پر گفتگو کے ساتھ ساتھ اس مرحلے کو آگے لے جایا جانا تھا پرتشدد افسوسناک واقعات کے رکنے پر غوروفکر ہوتا ہم بھی یقین رکھتے ہیں کہ ملک و قوم کو تشدد ٗ خونریزی اور تباہی و بربادی سے بچانے کیلئے رابطے مضبوط کریں ۔ ہماری کمیٹی کی کوشش ہے کہ مقتدر حلقوں سے رابطہ ہو تاکہ امن و امان کی بحالی میں بھی شریک کیا جاسکے اور ان کے تجربات سے استفادہ کیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو مقتدر حلقوں سے رابطے کا موقع نہیں مل رہا جو افسوسناک ہے۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ حکومتی کمیٹی کا ملنے کے لئے نہ آنا ڈیڈ لاک ہے، ڈیڈ لاک کے سینگ اور دْم نہیں ہوتے ہمیں متنازعہ نہ بنایا جائے، ہم فریق بن گئے تو مذاکرات کا عمل بہت دور چلا جائے گا۔ ایک انٹرویو میں حکومتی کمیٹی رکن رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ امکان ہے اہلکاروں کی شہادت کے بعد فوج ناراض ہوئی ہو گی۔ ایف سی اہلکاروں کی شہادت کے بعد طالبان کمیٹی کے ساتھ بیٹھنے سے قبل حکومت سے مشاورت ناگزیر ہے۔ طالبان کی جانب سے کارروائیاں نہ روکی گئیں تو مذاکرات بے سود ہونگے، کراچی کے واقعے میں طالبان کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کے بعد حکومت پہلے ہی دبائو کا شکار ہے، تازہ واقعہ سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے، حکومت سے مشاورت کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کرینگے۔ اب نئی اور خطرناک صورتحال سامنے ہے حکومت نے فیصلہ کرنا ہے کہ مذاکراتی عمل روکنا ہے یا طالبان سے وضاحت طلب کرنی ہے۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ طالبان کی نامزد کمیٹی کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ میرانشاہ کا دورہ بڑی ڈویلپمنٹ تھی جس کے بارے میں طالبان نے مثبت ردعمل ظاہر کیا تھا۔ قوم کو تباہی سے بچانے کیلئے آخری حد تک کوششیں جاری رکھیں گے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے کہا ہے کہ ایف سی اہلکاروں کا قتل مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ طالبان سے مذاکرات کا عمل ڈیڈ لاک کا شکار ہو گیا ہے، ڈرامائی تبدیلی ہونے تک کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ اب کوئی معجزہ ہی مذاکرات کو واپس لا سکتا ہے، وزیراعظم کو مذاکرات جاری رکھنے میں مشکلات ہیں۔تحریک طالبان میں بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ جنگ بندی کرکے مذاکرات کا عمل شروع ہو، مذاکرات کے اس عمل کو چلانا مشکل لگ رہا ہے جب تک طالبان نے غیرمشروط سیزفائر اور غیرعسکری قیدیوں کی رہائی کا اعلان نہ کیا طالبان سیز فائر پر راضی ہو گئے تھے یہ طے کیا جا رہا تھا کہ اعلان کیسے کیا جائے، حکومت نے فوج کے مورال سمیت تمام حالات کا موازنہ کرنا ہے جس کے بعد فیصلہ ہو گا۔ وزیراعظم نے اخلاص کے ساتھ مذاکراتی عمل کا آغاز کیا۔ جنگ بندی ہونی چاہئے، دوسرا آپشن بہت بھیانک ہو گا، آپریشن والے علاقوں میں آج تک استحکام نہیں آیا، 30لاکھ لوگ شکار ہوئے کیا قوم، معاشرہ، قبائلی عوام قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ ایف سی اہلکاروں کا قتل سنگین واقعہ ہے، ٹھوس اقدامات تک بات چیت جاری رکھنا مشکل ہے۔
طالبان کمیٹی