بدھ‘ 18 ؍ ربیع الثانی 1435ھ‘ 19؍ فروری 2014ء
امریکی سفیر کا سندھی دھنوں پر رقص، صوفیانہ موسیقی اور اس کی اثرپذیری کی تو ایک دنیا قائل ہے اور ہزارہا مخالفتوں کے باوجود یہ موسیقی آج بھی دنیا بھر میں روز اول کی طرح سنی جاتی ہے اور لاکھوں نہیں کروڑوں موسیقی کے پرستار اس پر سر دھنتے ہیں۔ اب یہاں خیرپور میں دیکھ لیں امریکی سفیر کے اعزاز میں دی گئی تقریب میں جب صوفیانہ کلام پیش کیا گیا تو وہ بھی بے خود ہو گئے۔ محاورۃ صرف سر دھننے پر ہی انہوں نے اکتفا نہیں کیا وجد میں سٹیج پر جا چڑھے اور محو رقص ہو گئے۔ مست الست حضرت عثمان علی مروندی المعروف لعل شہباز قلندرؒ نے اپنی مشہور عالم غزل میں خوب کہا ہے…؎
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم کہ ایں ذوقے کہ پیش یار می رقصم
ترجمہ: میں نہیں جانتا کہ آخر میں اس کو دیکھتے ہی کیوں ناچتا ہوں مگر مجھے ناز ہے اپنے اس ذوق پہ کہ میں یار کے سامنے ناچ رہا ہوں۔ اب یہ صاحب علم و دانش ہی جانتے ہیں کہ حضرت قلندر کے اس شعر میں کیا کیا رمز چھپے ہیں اور ہم میں سے ہر ایک نفس ہر ایک جان اسی مغنی ساز بجانے والے کی آواز پہ ہر دم ناچ ہی تو رہا ہے۔ یہ زندگی کا رقص ہے پھر موت کا رقص شروع ہوتا ہے، وہ جیسا چاہتا ہے ہم ہر بار اسی طرح ناچتے ہیں یعنی امور زندگی انجام دیتے ہیں۔ اب ہمیں دیکھ لیں ہم بحیثیت قوم غیر ملکی ’’لے‘‘ پہ ناچ رہے ہیں اور وہ جیسا چاہتے ہیں ویسے ہی ناچ رہے ہیں۔ کاش کوئی صاحب نظر ہمیں بھی میسر آ جائے اور پوری قوم کو اس وقت جاری رقص بسمل سے نجات دلا کر امن، سلامتی اور خوشحالی کے ساز پر فرحاں و شاداں رقصاں کر دے۔
٭٭٭٭٭
روسی صدر نے جمناسٹک کی سابق چیمپئن علینہ سے شادی کر لی۔ نجانے کیوں آج کل سربراہان مملکت پر عشق کا بھوت کچھ زیادہ ہی سوار ہو گیا اور کبھی امریکہ کبھی فرانس اور اب روس سے کیوپڈ کے تیر کا شکار روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی محبت کی شادی کی خبر نے ایک بار پھر عالمی اخبارات میں جگہ بنا لی ہے۔ شادی کرنا ذاتی فعل ہے اور مغربی معاشرے میں پسند کی شادی پر کوئی قدغن بھی نہیں جبکہ ہمارے معاشرے میں ذات پات، روسوم و رواج اور طبقاتی فرق کی وجہ سے پسند کی شادی خاصی مشکل ہو گئی ہے اور انتقامی کارروائیوں کے خوف سے تو اچھے خاصے مجنوں بھی لیلیٰ کے وصل سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔ ابھی گذشتہ دنوں چلنے والی اس خبر سے تو ان دور جدید کے رانجھوں، فرہادوں اور پنوؤں کے رہے سہے ہوش بھی اڑ گئے ہیں کہ لورالائی میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو مولوی صاحب کے فتویٰ کے بعد سنگسار کر کے بنا غسل و کفن کے دفنا دیا گیا۔ اب ایسی حوصلہ شکن خبروں کے بعد تو کوئی پتھر یا فولاد کا دل رکھنے والا ہی عشق کا پیچا لڑانے کی جرأت کر سکے گا کیونکہ کسی کو بھی پتھراؤ میں مرنے اور کفن و غسل کے بغیر دفن ہونے کا شوق نہیں ہے۔ کہاں وہ دور کہ لیلیٰ…؎
کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو
حسن حاضر ہے محبت میں سزا پانے کو
گاتے ہوئے اپنے مجنوں کو بچانے کی کوشش میں کامیاب ہو جاتی تھی مگر اب تو یہ بھی ممکن نہیں رہا… بات کہاں سے کہاں جا پہنچی تو روسی صدر کو اس کامیاب پسند کی شادی یعنی لو میرج پر مبارکباد ہی پیش کر سکتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ہمارے ہاں ممکن ہی نہیں اور اسی میں بہتری ہے ورنہ ہماری آبادی میں اضافہ کی شرح اور بڑھ جاتی۔
٭٭٭٭٭
بجلی چوری کا الزام‘ پیسکو چیف نے صوبائی وزیر شاہ فرمان کو 50 لاکھ ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا۔ اس جوابی کارروائی پر ہم ’’نہلے پہ دھلا‘‘ ہی کہہ سکتے ہیں۔ صوبائی وزیر کے بجلی چوری کے الزام پر پشاور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے چیف نے صوبائی وزیر شاہ فرمان کو جو نوٹس بھیجا ہے۔ اسکے مطابق انہیں صوبائی وزیر کی طرف سے بجلی چوری کے الزام سے بہت دکھ ہوا ہے۔ اب دیکھتے ہیں 50 لاکھ ہرجانے کا نوٹس ملنے کے بعد شاہ فرمان کی حالت کیا ہوئی ہو گی اور وہ اب کون سا نیا شاہی فرمان یعنی بیان داغتے ہیں۔ اس ’’نہلے پہ دھلے‘‘ کے جواب میں اب ہم تو ان کی طرف سے ’’سو سنار دی تے اک لوہار دی‘‘ والا ردعمل دیکھنے کی توقع کر رہے ہیں کیونکہ پیسکو چیف کا کہنا ہے کہ وہ بجلی چور نہیں تو اب شاہ فرمان بھی ثابت کریں کہ وہ بھی بجلی چور نہیں ہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ نہ وزیر بجلی چور ہیں نہ سرکاری اعلیٰ افسران۔بجلی چور تو عوام ہیں جو بے چارے ان دونوں مفت بجلی استعمال کرنیوالوں کی طرح صاحب اختیار نہیں اور گلی کوچوں میں مرلے مرلے ڈیڑھ دو مرلے کے مکانات میں ایک بجلی کا بلب اور ایک پنکھا چلا کر بھی 3 تا 4 ہزار روپے ماہانہ بل شرافت سے ادا کرتے ہیں۔ ذرا پوش علاقوں میں ان وزرا اور سرکاری اعلیٰ افسران کے بنگلوں اور کاروباری اداروں، کارخانوں کے بجلی کے بل چیک کریں تو سارا بھید کھل جائیگا کہ کون کب سے کتنا بل ادا کر رہا ہے، بڑے سے بڑا کارخانہ دار اور دکاندار بھی صرف چند ہزار بجلی بل جمع کراتا ہے اور کنالوں اور ایکڑوں میں پھیلے بنگلوں والے بھی ڈیڑھ مرلے کے مکان کے برابر بل جمع کراتے ہیں
٭٭٭٭٭
بھارت سے آنے والی تھر ایکسپریس تباہی سے بچ گئی، ٹریک کے بولٹ نکالنے والے 2 افراد گرفتار!
کئی روز سے ریلوے پٹڑیوں پر بم دھماکوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان سے عوام بہت افسردہ ہیں ابھی خدا خدا کر کے نئے وزیر ریلوے نے اس دم توڑتے محکمہ کو دوبارہ حرکت کے قابل بنایا مگر یہ حرکت میں برکت ملک دشمنوں کو برداشت نہیں ہوئی اور انہوں نے ایک مرتبہ سندھ اور بلوچستان میں ٹرینوں اور ریلوے ٹریک کو نشانہ بنا لیا ہے۔ اب خواجہ سعد رفیق بھاگے دوڑے دھماکے والی جگہوں پر پہنچ جاتے ہیں، مرنے والوں اور زخمی ہونے والوں کیلئے امدادی رقومات کا اعلان کر کے ان کے لواحقین اور ورثا کی تسلی و تشفی کر کے ریلوے روٹ بحال کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
بے شک ان کی آنیاں جانیاں قابل دید ہیں مگر اصل مسئلہ محکمہ ریلوے کی بچھی کچھی لائنوں کی حفاظت اور مرمت کا ہے۔ سو سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا بوسیدہ پُل، پرانی پٹڑیاں آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں اور ان کی وجہ سے خدا نہ کرے کہیں تخریب کاری سے بھی بڑا کوئی حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے لائنوں اور ریلوے تنصیبات کی طرف بھی توجہ دیں۔