35 پنکجروں کے حوالے سے صورتحال واضح ہونی چاہئے‘ خواتین کے ووٹ پر پابندی والے پولنگ سٹیشنز کے نتائج نہ مانے جائیں: قائمہ کمیٹی
اسلام آباد (ایجنسیاں) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میں 35 پنکچروں کے تذکرے سے دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی۔ سیکرٹری الیکشن کمشن ارکان اسمبلی اور کمیٹی کے چیئرمین کے درمیان دلچسپ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ منگل کو قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین میاں عبدالمنان کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سمیت سیکرٹری الیکشن کمشن اور دیگر متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ ارکان نے مطالبہ کیا کہ 35 پنکچروں کے حوالے سے صورتحال واضح ہونی چاہئے۔ سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد نے کہا کہ جنہوں نے الزام عائد کیا ہے وہی وضاحت کرسکتے ہیں کہ کون پنکچر ہوا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین میاں عبدالمنان نے کہا کہ ہم انتخابات جیت کر آئے ہیں کوئی پنکچروں کی دکان نہیں کھولی۔ اس پر اجلاس میں قہقہہ بلند ہوا۔ قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے سفارش کی کہ جن پولنگ سٹیشنز پر خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی ہوگی، انکے نتائج تسلیم نہ کئے جائیں اور امیدواروں کو نااہل قرار دیا جائے۔ کمیٹی نے مزید کہا کہ انتخابات عدلیہ کے نہیں الیکشن کمشن کے زیر نگرانی قابل قبول ہیں، شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں، قانون سازی کیلئے ہر ممکن تعاون کرینگے۔ ریٹرننگ آفیسرز کو غیر متعلقہ اور ذاتی سوالات سے روکنے کے ساتھ امیدواروں کی تضحیک سے گریز کیا جائے۔ کمیٹی نے ای ووٹنگ سسٹم، الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیو میٹرک ڈیوائس کے استعمال پر تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے مشاورت کیلئے الگ اجلاس بھی طلب کرلیا جبکہ سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد خان نے کہا کہ ’’35 پنکچرز‘‘ کے معاملے پر کارروائی نہیں کرسکتے، الیکشن کمشن کا اختیار صرف 60 دن کا ہے، پارلیمنٹ چاہے تو مدت 400 دن کرسکتی ہے، 2 سال میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین قابل عمل بنالیںگے، 2016ء کے بعد ملک بھر میں انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرائے جائینگے، بارہا قانون سازی کا مطالبہ کیا مگر سابق پارلیمنٹ میں توجہ نہ دی گئی، سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر عدلیہ سے انتخابات کرائے تھے۔ سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد خان نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ملک میں انتخابات الیکٹرانک مشین کے ذریعے کرانے کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے دھاندلی کی شکایات میں کمی، ووٹوں کی گنتی میں آسانی، ٹرن آئوٹ میں اضافے سمیت دیگر معاملات میں بہتری آئیگی جس پر چیئرمین کمیٹی میاں عبدالمنان نے کہاکہ وزیراعظم نے خصوصی پیغام کے ذریعے باور کرایا ہے کہ آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ چیئرمین نے کہاکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی قانون سازی کیلئے جلد قومی اسمبلی میں بل پیش کیا جائیگا۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے تجویز پیش کی کہ عورتوں کے ووٹ کو یقینی بنانے کیلئے قانون سازی کی جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ہر پولنگ سٹیشن پر 10 سے 15فیصد ووٹ خواتین کے لازم پول ہونے چاہئیں۔ اراکین کمیٹی نے 2013ء کے عام انتخابات کے دوران ریٹرننگ آفیسرز کے رویوں کو غیر مناسب اور ناشائستہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ غیر متعلقہ سوالات پوچھ کر امیدواروں کی تضحیک کی گئی ، ہماری تجویز ہے کہ آئندہ انتخابات میں عدلیہ کی بجائے الیکشن کمشن کے زیر اہتمام کرائے جائیں اور اس حوالے سے الیکشن کمشن کو 500 سے 1000سٹاف بھی درکار ہو تو اسے فراہم کیا جائے۔ اجلاس میں ایک موقع پر چیئرمین کمیٹی میاں عبدالمنان بھی پھٹ پڑے اور کہاکہ ذاتی سوالات یا آیات کریمہ سننے کا اختیار کس طرح ریٹرننگ آفیسرز کو دیدیا گیا ہے جس پر سیکرٹری الیکشن کمشن نے یہ جواز پیش کرتے ہوئے کہاکہ 2012ء میں سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر عدلیہ کے زیر نگرانی انتخابات کے انعقاد کیاگیا۔