مقتل کا گیٹ کھلا، موٹرسائیکل ساری رات باہر کھڑی کیوں رہی
لاہور (احسان شوکت سے) پولیس حکام کے مطابق جوہر ٹاؤن میں آٹھ افراد کے بہیمانہ قتل کے واقعہ کا ذمہ دار ان کا بھائی نذیر ہے مگر کچھ ایسے سوالات سامنے آئے ہیں کہ پولیس حکام اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ اگر نذیر نے اپنے تمام اہلخانہ کو نشہ آور کیمیکل سنگھا کر بے ہوش کرنے کے بعد ہتھوڑے کے وار کر کے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی تو پھر گھر کا مرکزی گیٹ کیوں کھلا چھوڑا تھا کیونکہ اسی سہ پہر مقتولین خواتین کا بھانجا سنی جو گارڈن ٹاؤن کے مقامی کالج میں زیر تعلیم ہے وہاں شادی کا کارڈ دینے آیا تو گھر کا مرکزی دروازہ لوہے کا گیٹ اور اندر کا داخلی لکڑی کا دروازہ بھی کھلا تھا۔ اس نے اندر جا کر دیکھا تو وہاں خون کی ہولی کھیلی جا چکی تھی۔ اس کے علاوہ گھر کے باہر ان کی موٹرسائیکل بھی کھڑی تھی۔ گھر والوں نے رات سونے سے قبل موٹرسائیکل اندر گیراج میں کھڑی کیوں نہ کی۔ اگر سب گھر والے اپنے اپنے کمروں میں سو رہے تھے تو پھر پڑھے لکھے بیشتر لوگوں کی نفسیات ہے کہ وہ بیڈ روم میں اندر سے دروازے کی چٹخنی یا لاک لگا کر سوتے ہیں مگر کیا وجہ یا پھر حسن اتفاق ہے کہ گھر میں موجود تینوں بیڈ رومز کے مکین کمروں کو اندر سے چٹخنی لگائے بغیر سو رہے تھے۔ حالانکہ تینوں بیڈ رومز کے دروازوں کی اندر چٹخنیاں صحیح سلامت لگی ہوئی ہیں۔ اگر اہلخانہ تیاری کر کے سو رہے ہوتے تو یقیناً تینوں بیڈز روم میں اندر سے کسی نہ کسی نے کنڈی لگائی ہونی تھی جبکہ کینسر کے مرض میں مبتلا کمزور نحیف شخص کے لئے کنڈی توڑنا ناممکن تھا۔ اس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ تمام اہلخانہ کو پیر اور منگل کی درمیانی شب کی بجائے سر شام ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو مگر اگلے دن خواتین کے بھانجے سنی کے آنے پر اس دلخراش واردات کا انکشاف ہوا ہو۔ علاوہ ازیں لاہور میں قتل کی واردات میں کیمیکل استعمال کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل ایک سو سے زائد بچوں کے قاتل جاوید اقبال نے بھی بچوں کی نعش گلانے کے لئے کیمیکل کا استعمال کیا تھا۔ علاوہ ازیں نذیر بیڈ روم میں نہیں بلکہ اس کا بستر ڈرائنگ روم میں لگا ہوا ہے اور وہ ڈرائنگ روم میں ہی سوتا تھا مگر اس کی نعش ڈرائنگ روم میں نہیں بلکہ بیڈ روم کے قریب راہداری سے ملی۔ اگر اس نے سب کو مار کر خودکشی کرنی تھی تو وہ نیند کی گولیاں کھا کر اپنے بیڈ پر آکر لیٹتا۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب شاید ہی نذیر کو ملزم قرار دینے والے تفتیشی افسران دے سکیں۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر نے اس سلسلہ میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ قتل کے ایسے واقعات میں بہت سے پہلو مخفی رہ جاتے ہیں اور شاید ان سوالات کے جواب بھی سربستہ راز ہی رہیں جن سے کبھی پردہ نہ اٹھے۔