وزیراعظم کے ذہن میں ابھی تک فوجی آپریشن کا آپشن موجود نہیں : بی بی سی
اسلام آباد (نیٹ نیوز+ بی بی سی) وفاقی حکومت نے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا سلسلہ فی الوقت تو منقطع کردیا ہے لیکن وزیراعظم ڈاکٹر نوازشریف کیساتھ اس بارے میں ہونیوالی مشاورت میں شریک بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انہوں نے شدت پسندوں کیخلاف فوجی کارروائی کرنے کے بارے میں ابھی تک کابینہ یا حکمران جماعت کے ساتھ کسی قسم کی مشاورت نہیں کی۔ وزیراعظم کے قریبی خیال کیے جانے والے ایک سینیئر مسلم لیگی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ نوازشریف نے فوجی قیادت کے ساتھ بھی صرف ایک بار قبائلی علاقوں میں طاقت کے استعمال پر بریفنگ لی تھی۔ کابینہ کے ایک رکن نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گذشتہ ماہ ایک بریفنگ میں وزیراعظم کے براہِ راست سوال کے جواب میں کہا تھا کہ فوجی آپریشن کے ذریعے شمالی وزیرستان کو شدت پسندوں سے خالی کرانا ’’قابلِ عمل‘‘ ہے۔ تاہم کابینہ کے اس رکن کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے کابینہ، حکمران جماعت یا فوجی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں اس موضوع پر مزید کوئی بات نہیں کی۔ مسلم لیگ (ن) کے اہم عہدے پر فائز سیاسی رہنما کے مطابق طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے بنائی گئی کمیٹی نے فی الحال اپنی کارروائیاں معطل تو کر دی ہیں لیکن مذاکرات کا آپشن کلی طور پر ابھی ترک نہیں کیا گیا ہے۔ اس رہنما کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے معاملات ایک بار پھر اسی طریقے پر واپس چلے گئے ہیں جس طرح سے اس کمیٹی کے قیام سے قبل چل رہے تھے۔ 29 جنوری کو اس کمیٹی کے قیام سے قبل طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ذمہ داری وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کے سپرد تھی جو خفیہ طریقے سے مذاکرات کو آگے بڑھا رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق ’چودھری نثار کی مخالفت کے باوجود وزیراعظم نواز شریف نے ان مذاکرات کو علی الاعلان کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ چودھری نثار کی رائے تھی کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اتنی پیچیدگیاں اور نزاکتیں ہیں کہ اعلانیہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔‘ تاہم سیاسی جماعتوں، خاص طور پر عمران خان کے اصرار پر وزیراعظم نے مذاکراتی عمل کو عوام کے سامنے منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان ذرائع کے مطابق کمیٹی کی جانب سے مذاکرات جاری رکھنے سے معذوری کے بعد گیند ایک بار پھر چودھری نثار کے کورٹ میں آ گئی ہے جو کمیٹی کے قیام سے قبل اس سلسلے میں خاصی پیش رفت کا دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں۔ مسلم لیگی عہدیدار کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے عام انتخابات سے قبل ہی شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں شروع کر دی تھیں ’اس ایک سال کے دوران ابھی تک انہوں نے کسی پارٹی عہدیدار یا کابینہ کے ارکان کے ساتھ فوجی کارروائی شروع کرنے کے بارے میں مشاورت نہیں کی ہے۔‘ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اس صورتحال سے مطلب یہی اخذ کر سکتے ہیں کہ وزیراعظم کے ذہن میں صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لئے فوجی آپریشن ابھی تک ایک آپشن کے طور پر موجود نہیں ہے۔