حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی‘ انکار کے باوجود لاپتہ افراد حساس اداروں سے ہی برآمد ہوئے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت/نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ کے 2 بنچوں میں 5 لاپتہ افراد کی بازیابی کے کیسوں کی سماعت ہوئی۔ 4 لاپتہ افراد کے حراستی مراکز سے گھر واپس پہنچ جانے کی تصدیق کے بعد عدالت نے ان کے کیس نمٹا دیئے۔ ایک لاپتہ شخص کے گھر پہنچنے کی تصدیق نہ ہونے پر مزید سماعت 24 فروری تک ملتوی کر دی۔ جسٹس ناصرالمالک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ایک لاپتہ کے واپس گھر پہنچنے کی تصدیق پر درخواست نمٹا دی جبکہ جواد ایس خواجہ کی سربراہی میںپانچ افراد میں سے تین کے گھروں کو واپس پہنچنے پر درخواستوں کو نمٹا دیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ لواحقین کو عمر کے آخری حصے میں یہ خوشخبری ملی ہے۔ یہ اچھی بات ہے‘ ان کی قسمت میں خوشی لکھی تھی۔ اچھا ہوا کچھ تو پیشرفت ہوئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ چاروں لاپتہ افراد بازیاب ہو چکے ہیں اور یہ تمام افراد مالاکنڈ کے ایک حراستی مرکز میں تھے۔ لاپتہ منصور مہدی اور ڈاکٹر عابد شریف کے مقدمات میں وفاقی حکومت سے 6 مارچ تک جواب طلب کرلیا ہے اور ڈاکٹر عابد شریف کی اہلیہ کو ملازمت سے فارغ نہ کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ حکومت لاپتہ افراد کے مقدمات میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی‘ حساس ادارے اپنی تحقیقات سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کے حوالے سے سرے سے کوئی کوشش ہی نہیں کرتے بس اتنا لکھ کر بھیج دیتے ہیں کہ یہ بندہ ان کی تحویل میں نہیں ہے‘ شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے‘ اگر ادارے وسائل کے باوجود لاپتہ افراد کو بازیاب نہیں کرواتے تو یہ ان کی مجرمانہ غفلت ہے جسے نظرانداز نہیں کرسکتے‘ 9 سال کا عرصہ گزر گیا ابھی تک پولیس سمیت کسی ادارے کو یہ تک پتہ نہیں کہ آخرکار ان لوگوں کو کس نے اور کیوں اٹھایا ہے او اب وہ کہاں ہیں؟ حکومت اور حساس ادارے اپنی پوزیشن واضح کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ امریکہ کیخلاف تھے یا جہادی یا دشمنی رکھتے تھے تو ان کی آخرکار گمشدگی کی کچھ تو وجوہات ہوں گی‘ پرویز مشرف کی کتاب میں لاپتہ افراد کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت ہونے کی بات محض مفروضہ بھی ہوسکتی ہے‘ حقائق اس سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔ دو رکنی بنچ میں مقدمات کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر‘ آمنہ مسعود جنجوعہ اور لاء آفیسر پنجاب رزاق اے مرزا پیش ہوئے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ بہت سے مقدمات میں حساس اداروں نے لاپتہ افراد کے حوالے سے سختی سے انکار کیا مگر جب اصرار کیا گیا تو پتہ چلا کہ بندے حساس اداروں کے پاس ہیں۔ ان کے بیانات پر کس حد تک اعتبار کرسکتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے کہا کہ ممکن ہے کہ یہ ان کے پاس نہ ہو۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ آپ ایک ایسا ادارہ ہیں جس کے پاس وسائل ہیں۔ تحقیقات کی جانی چاہئے کہ اگر کوئی شخص غائب ہے تو کیا ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اس کو تلاش کرے۔ لواحقین بتا رہے ہیں کہ 9سال گزر گئے حکومت نے کیا تحقیقات کی ہیں؟ کیا اس کی کسی کے ساتھ دشمنی تھی؟ کسی نے یرغمال بنالیا؟ کیا وہ جہادی تھے اور افغانستان چلے گئے، حکومت اپنی پوزیشن کلیئر کیوں نہیں کرتی۔حساس ادارے بھی اپنی پوزیشن کلیئر کریں۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ اگر ریاست کو پتہ چل گیا کہ فلاں کا بیٹا غائب ہے تو کیا انہوں نے اپنے اداروں کو متحرک کیا ہے۔ یہ حساس حالات ہیں کسی جگہ پر تساہل ہوگیا تو اور بات ہے آپ نے کیا کیا ہے،آپ نے تو محض انکار ہی کیا ہے جب تک تحقیقات ہی نہیں کی گئی تو بندہ کہاں سے مل سکتا ہے۔ حساس ادارے مزے سے بس اتنا بتا دیتے ہیں کہ انہیںکچھ معلوم نہیں ہے۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ جن اداروں کا کام تحقیقات کرنا ہے وہ کیوں نہیں کرتے، جہاد میں شامل تھے تو اس حوالے سے بتایا جائے امریکہ کیخلاف تھے کچھ تو پتہ چلتا، ابھی تک وزارت دفاع نے اپنے اداروں پر الزام کے حوالے سے کوئی تحقیقات تک نہیں کیں کہ یہ الزام غلط ہے یا صحیح ہے۔ بعدازاںعدالت نے حکمنامہ میںکہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے متعلقہ حکام سے رابطہ کرکے رپورٹ دی جبکہ حکومت پنجاب کی جانب سے بھی مقدمہ کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ کمیشن نے بھی عابد شریف کے واجبات ادا کرنے کی ہدایت کررکھی ہے جبکہ دوسری طرف وزارت صحت پنجاب نے ان کو نوکری سے نکالنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے، حکومت ایسا نہ کرے حکومت پنجاب سے ہدایات حاصل کرکے جواب دیں۔ دریں اثناء آمنہ مسعود جنجوعہ کے تاخیر سے آنے کی وجہ سے مسعود جنجوعہ کیس کی سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔
سپریم کورٹ