ملاقاتیں باتیں اور کانفرنس
نوائے وقت کے کالم نگار چودھری محمد اکرم نے دوستوں کے اعزاز میں ایک بڑا اکٹھ کیا جس ماحول میں پتہ نہ چلتا ہو کہ دشمن کون ہے بلکہ دشمن کون کون ہے، دوستوں کو اکٹھا کرنا ایک بڑا کام ہے۔ کام بڑا ہو تو اُسے کارنامہ کہتے ہیں۔ آج باتیں تو جنرل حمید گل کی سننے والی تھیں۔ شاید انہی کو سننے ہم سب لوگ آئے تھے مگر یہاں ایک جگہ جمع ہونے والوں کے لئے کسی ایک آدمی کو سننے کا ماحول نہ تھا، موقعہ بھی نہ تھا۔ لگتا تھا جیسے سب لوگ باتیں کر رہے ہوں اور سب لوگ سُن رہے ہوں۔ چار پانچ دوست جو ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے تھے۔ انہیں خبر نہ تھی کہ دوسرے چار پانچ کیا بات کر رہے ہیں۔
صحافی دوستوں اور کالم نگاروں کی اکثریت تھی، اعجاز الحق، جنرل جاوید سعید اللہ خان نیازی اور ڈاکٹر مجاہد کامران صحافیوں کے درمیان بھی نمایاں تھے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کے ساتھ ان کی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر شازیہ قریشی بھی تھیں۔ وہ واحد خاتون اس محفل میں تھیں۔ انٹرنیشنل لا میں انہوں نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ چودھری اکرم کو دوچار خواتین اور بھی بلانا چاہئیں تھیں۔ وہ پوری محفل میں تقریباً خاموش رہیں اور یہ بات بے حد منفرد تھی۔ وہ شاید منتظر رہیں کہ انٹرنیشنل لا کے حوالے سے بات ہو۔ ہمارے لوگ تو نیشنل لا کے لئے بھی کوئی بات نہیں کرتے۔ قانون پر عمل ہی نہیں ہوتا تو اس کے جاننے کی کیا ضرورت ہے، ہم زندہ قوم ہیں جس لفظ کے ساتھ قومی کا لفظ لگتا ہے ہم اسے اپنی زندگی سے الگ کر دیتے ہیں۔ قومی زبان، قومی لباس، قومی ترانہ وغیرہ وغیرہ۔ قومی ترانہ تو کسی کو آتا ہی نہیں۔ ایک ممبر اسمبلی سے قومی ترانہ سنانے کا کہا گیا تو اس نے کہا کہ جب میں بچہ تھا تو مجھے قومی ترانہ آتا تھا اب میں بڑا ہو گیا ہوں۔ شفیق الرچمن نے لکھا تھا ’’بچے اچھے ہوتے ہیں لیکن ان میں ایک خرابی ہے کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں‘‘۔ اس خرابی کے مرتکب ہم سب ہوتے ہیں مگر لگتا ہے کہ ہم کبھی بڑے نہیں ہوتے۔ بڑے بندے پیدا ہونا بند ہو گئے ہیں۔ بچے کی سی صفات کو ہم بچگانہ سمجھتے ہیں، معصومیت اور بھولپن کا بانکپن ہم میں باقی نہیں رہتا۔ قومی لباس کا معاملہ دلچسپ ہے کہ اب پتلون کوٹ بین الاقوامی یعنی انٹرنیشنل لباس ہو گیا ہے، اب کوئی لیاس قومی لباس نہیں رہا مگر جس آدمی کو شلوار قمیض اچھی لگتی ہو اسے تو کچھ خیال رکھنا چاہئے۔ نوازشریف کو شلوار قمیض خاص طور پر نیلی شلوار قمیض اچھی لگتی تھی مگر انہوں نے تیسری بار حکمران بننے کے بعد کوٹ پتلون پہننا شروع کر دی ہے، وہ ٹائی بھی لگاتے ہیں۔ ترکی کا ایک وزٹ ہوا تو وہاں سب لوگ اور عورتیں پتلون اور جینز وغیرہ پہنے ہوئے نظر آئیں۔ میں نے ایک لڑکی سے پوچھا کہ شلوار تو ترکی کا لفظ ہے اور ترک ملبوس ہے، اس نے کہا کہ اردو بھی ترکی زبان کا لفظ ہے؟ مگر آپ کے حکمران پاکستان میں اردو نہیں بولتے ترکی میں تو بالکل نہیں بولتے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کبھی کبھی شلوار قمبض پہن لیتے ہیں، جب سے وہ امریکہ کا وزٹ کر کے آئے ہیں تو پہلے پتلون پہننا چھوڑ دیا اب پہنتے ہیں تو کم کم پہنتے ہیں، ٹائی تو بالکل نہیں لگاتے۔ قومی زبان کا معاملہ غیر قومی ہو گیا ہے۔ لوگ اردو بولتے بھی ہیں تو آدھی سے زیادہ انگریزی بولتے ہیں۔ اس طرح انٹرنیشنل زبان نیشنل ہو گئی ہے یا نیشنل زبان انٹرنیشنل ہو گئی ہے۔ خیبر پختونخوا کی اے این پی والے حاجی عدیل نے سینٹ میں ایک بل پیش کیا ہے۔ اے این پی خیبر پختونخوا کے علاوہ کہیں نہیں ہے جس طرح ایم کیو ایم کراچی میں ہے، ان کے دفاتر دوسرے شہروں میں ہیں، مسلم لیگ (ن) لاہور میں ہے، علاقائی پارٹیاں قومی پارٹیاں بنی ہوئی ہیں۔ پشتو، سندھی، بلوچی، سرائیکی اور پنجابی کو قومی زبانیں قرار دیا جائے، اردو کو دفتری زبان کا درجہ دیا جائے، ہم تو پہلے ہی علاقائی زبانوں کو پاکستانی زبانیں لکھتے ہیں مگر بہت سی زبانیں قومی زبانیں نہیں ہوتیں، اردو کو قومی زبان تو حکمران اور افسران بننے ہی نہیں دیتے۔ دفتری زبان بھی انگریزی کو بنا رکھا ہے۔ حاجی عدیل کی یہ بات مان لی جائے کہ اردو کو دفتری زبان ہی بنا لیا جائے۔ مفتی محمود کے زمانے میں صوبہ خیبر پختونخوا (سرحد) کی سرکاری زبان اردو تھی۔
بین الاقوامی قوانین کی بات کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی، ہمارے ملک میں بین الاقوامی قوانین تو نہیں مگر بین الاقوامی خواتین بہت ہیں؟
برادرم مجیب الرحمن شامی ذرا دیر سے آئے مگر محفل میں سب سے زیادہ شریک ہو گئے۔ کئی طرح کی گفتگو میں شریک لوگ اُن کی آوار بخوبی سن رہے تھے۔ آج کل اُن میں ایک ادائے دلبرانہ سامنے آئی کہ محفل میں سلام کسی کو کیا جائے وعلیکم السلام کی آواز اُن کی طرف سنائی دیتی ہے۔ اُن کے ساتھ بیٹھے ہوئے سعید اللہ خان نیازی دھیرے سے مسکرا کر رہ گئے۔ شامی صاحب کو اس مسکراہٹ کے معافی نہیں بتاؤں گا، شامی صاحب ان دنوں صحافیانہ مفاہمت کے طور پر ہر قسم کے سیاستدانوں کی تعریف کرتے ہیں۔ ہم شامی صاحب کو لیڈر صحافی سمجھتے ہیں مگر چونکہ سیاستدان صرف حکمران بننا پسند کرتے ہیں لیڈر نہیں بن سکتے۔ ہم محترم شامی صاحب کو بھی سیاستدان صحافی سمجھنے لگے ہیں۔ آج کل صحافت اور سیاست کی سرحدیں رَل مِل گئی ہیں۔ صحافیوں میں کئی حکمران صحافی بھی ہیں۔ وہ نجی ٹی وی چینلز پر تجزیہ کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو تجزیہ کے معافی بھی نہیں آتے ہوں گے۔ چند صحافی اور چند سیاستدان ہیں، وہ ایک جیسی باتیں کرتے ہیں، لگتا ہے کہ وہی بات کر رہے ہیں جو پہلے دن کی تھی۔ ہر صحافی ہر سیاستدان کسی نہ کسی طرح سمجھتا ہے کہ مشرف بیرون ملک چلا جائے گا۔ اکرم چودھری کی محفل میں یہ باتیں ہوئیں۔ ایک دوست نے کہا کہ اسے وہی بھجوائے گا جس نے پاکستان بھجوایا تھا، کوئی ہے جو جنرل مشرف سے اندر کی یہ بات نکلوا سکے کہ وہ پاکستان کیوں آئے ہیں۔ کچھ صحافی یعنی اینکر اس حوالے سے پاک فوج کے حوالے سے عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں۔ پاک فوج کے حوالے سے جنرل (ر) جاوید نے بہت خوبصورت باتیں کیں جو کسی اگلے کالم میں لکھی جائیں گی۔ میں جس گروپ میں تھا وہاں برادرم عطاء الرحمن، فرخ سہیل گوئندی، سلمان عابد، سعید آسی کے علاوہ اور کچھ دوست تھے، دور دور بیٹھے ہوئے دوست بھی گفتگو میں شریک تھے۔ اس طرح کی محفلوں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ملاقات ہو جاتی ہے بلکہ ملاقاتیں ہو جاتی ہیں۔
نظریہ پاکستان کانفرنس بھی شروع ہوئی ہے، چیئرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ ڈاکٹر مجید نظامی نے افتتاح کیا۔ خواجہ سعد رفیق نے زبردست تقریر کی۔ وہ وزیر نہ تھا تو ایسی ہی تقریریں کرتا تھا۔ جنرل ذوالفقار خان اور ہمایوں احسان کی تقریر کو بھی پسند کیا گیا۔ مجید نظامی افتتاحی تقریب کے بعد دور دراز سے آنے والے خواتین و حضرات مختلف گروپس کی صورت میں بیٹھ گئے۔ سینکڑوں لوگوں میں ہر ایک نے کچھ نہ کچھ گفتگو کی۔ اس گفتگو کی ایک رپورٹ شاہد رشید کی نگرانی میں تیار کی جائے گی۔ جنرل حمید گل بھی آج یہاں آ رہے ہیں، پروفیسر سعید صاحب بھی کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔ یہ کانفرنس ابھی جاری ہے اس لئے اس پر کالم لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔