• news

شمالی وزیرستان : زمینی کارروائی ہوئی نہ فوج نے نقل و حرکت کی : ذرائع

اسلام آباد+لاہور (سہیل عبدالناصر+محمد نواز رضا+جواد آر اعوان/دی نیشن رپورٹ) دہشت گردی کی وارداتوں  اور جوابی بمباری  کے باوجود حکومت اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان پس پردہ اور غیر رسمی روابط برقرار ہیں اوران غیر رسمی روابط کو باضابطہ مذاکراتی میکنزم کی شکل دینے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ ایک مستند ذریعہ کا دعویٰ ہے کہ بات چیت کیلئے تشکیل دی گئی حکومت اور طالبان کمیٹیوں کے دن گنے جا چکے ہیں۔ اس ذریعہ کے مطابق جہاں حکومت نے مذاکرات کا دروازہ سرے سے بند نہیں کیا وہیں  مولوی فضل اللہ سمیت  شدت پسندوں کے طاقتور دھڑے مذاکرات کے حق میں ہیں۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مذاکرات کے معاملہ پر شدت پسند تنظیم میں اختلافات ہیں۔ پاک فضائیہ اور آرمی ایوی ایشن کی جاری کارروائیوں میں بھی  وسط ایشیا کے جنگجوئوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پس پردہ روابط  زیادہ تر ان ہی شخصیات کے ذریعے ہو رہے ہیں  جن کے ذریعہ مصالحت کرانے پر حکومت اور حکیم للہ محسود کے درمیان اتفاق ہو گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ شدت پسندوں میںسے مولوی فضل اللہ اور خان سید محسود عرف سجنا وہ طاقتور رہنما ہیں جو مذاکرات اور  صلح کے حق میں ہیں۔ سجنا کو تو اس حوالے سے نہایت معقول شخصیت گردانا جاتا ہے اور وہ  اپنی مرضی  کے مطابق عمل کرنے پر بھی قادر ہیں۔ فضل اللہ بھی حالیہ برسوں کے تجربات کے پیش نظر امن بات چیت کے حامی ہیں لیکن ان کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ افغانستان میں مقیم ہیں ان کی ذاتی اور عملی رسائی  صوبہ خیبر پی کے، کے ضلع اپر دیر تک ہے۔ مذاکرات مخالف دھڑوں میں قاری شکیل گروپ، مہمند ایجنسی کے ولی محمد، خیبر ایجنسی کے دھڑے  اور سب سے بڑھ کر وسط ایشیائی جنگجو شامل ہیں۔ شمالی وزیرستان کے داوڑ قبیلے کے علاقہ میں مقیم وسط ایشیائی جنگجوئوں اور خیبر ایجنسی میں مذکورہ مقامی دھڑوں کو سرجیکل حملوں میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شدت پسندوں کے خلاف تمام تر کارروائی جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ کی جا رہی ہیں۔ کسی مقام پر زمینی کارروائی کی گئی اور نہ ہی فوج کی نقل و حرکت عمل میں آئی کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں۔ شمالی وزیرستان میں  زمینی کارروائی کیلئے پہلے سے خاصی تعداد میں فوج پہلے سے متعین ہے۔  ایک اور ذریعہ کے مطابق مذاکراتی کوششوں کی افادیت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی البتہ مذاکرات کیلئے حکومت اور طالبان کمیٹیوں کی افادیت ضرور ختم ہو گئی۔ ایک بار پھر وہی محترم شخصیات اہم کردار ادا کر سکتی ہیں جن پر پہلے بھی حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان  اتفاق ہو گیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے ان شخصیات کو فریقین بات کرنے اور فیصلہ کرنے کا مینڈیٹ دیں۔ اس صورت میں بات چیت دنوں میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔اسلام آباد سے وقائع نگار خصوصی کے مطابق حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہونے کے بعد ’’جنگ بندی‘‘ کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد کی جانب سے 1973 ء کے آئین کو غیر اسلامی قرار دینے اور یک طرفہ طور پر جنگ بندی سے انکار کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کے باہم رابطے ہوئے ہیں اور طالبان کی قیادت کے ’’سخت طرزعمل‘‘ پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے سیکورٹی فورسز کو ’’جوابی کارروائی‘‘ کی اجازت دے کر عملاً شمالی وزیرستان میں ’’فوجی آپریشن‘‘ کی اجازت دے دی ہے۔ سردست حکومت طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کر کے ان کی طاقت کے مراکز کو تباہ کرے گی۔ اگلے مرحلے میں زمینی آپریشن کیا جائے گا۔ شمالی وزیرستان میں خاصہ داران اور لیوی کو طالبان کے مقابلے کیلئے تیار کیا جا رہا ہے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن نے نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے سخت طرزعمل کی وجہ سے حکومتی اور مذاکراتی کمیٹیاں ’’بند گلی‘‘ میں پہنچ گئی ہیں۔ دونوں کو نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آ رہی۔ مولانا سمیع الحق نے اپنے ترجمان مولانا محمد یوسف کی وساطت سے وفاقی وزیر داخلہ کو اہم پیغام پہنچایا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ اپنی ذاتی کوششوں سے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے دروزے بند نہ ہونے دیں اور ان سے کہا ہے کہ وہ مذاکراتی عمل کی بحالی اور فائر بندی میں اپنا کردار ادا کریں۔ وفاقی وزیر داخلہ گھمبیر صورتحال میں بھی طالبان کے کچھ گروپوں سے زیرزمین رابطے میں ہیں اور وہ آئندہ چند دنوں میں کسی بڑے ’’بریک تھرو‘‘ کے بارے میں پُرامید دکھائی دیتے ہیں۔ دی نیشن کے مطابق اس وقت جبکہ مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں، سکیورٹی فورسز کے سپیشل یونٹس کے ذریعے شمالی وزیرستان ٹارگٹڈ زمینی آپریشن شروع کئے جانے کا امکان ہے۔ ان ذرائع کے مطابق بڑی فوجی کارروائی امن مذاکرات کے امکانات بالکل ختم ہونے کے بعد آخری مرحلے میں کی جائیگی۔ اگر طالبان غیرمشروط جنگ بندی کرتے ہیں تو حکومت اب بھی مسئلہ مذاکرات سے حل کرنے کی خواہشمند ہے۔ حکومتی کمیٹی کے ایک رکن نے بتایا کہ طالبان سے مذاکرات دوبارہ شروع ہوتے نظر نہیں آتے کیونکہ طالبان قیادت کا شوریٰ میں موجود امن مخالف عناصر پر کوئی اثرورسوخ نہیں۔ حکومت کو حاصل اسکا مینڈیٹ اب بھی اسکے پاس ہے۔ ذرائع کے مطابق طالبان میں پڑنے والی پھوٹ واضح نظر آتی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق حکومت افغانستان سے درخواست کریگی کہ وہ سرحد پار کرکے افغانستان میں جا کر پناہ لینے والوں کے خاتمے کیلئے کوئی میکنزم بنائے۔

ای پیپر-دی نیشن