پاکستان کی سلامتی کو لاحق شدید خطرات
آنیوالی نسلیں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو غداروں کی صف میں شمار کریں گی ان دونوں آمر جرنیلوں نے اپنے ذاتی اور امریکی مفادات کی خاطر پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کردیا۔ اگر یہ دونوں آمر اور غاصب جرنیل امریکی جنگ کیلئے پاکستان کو فرنٹ لائین سٹیٹ نہ بناتے تو آج پاکستان میں آگ اور خون کی ہولی نہ کھیلی جارہی ہوتی۔ بھارت کے ساتھ جنگوں میں اتنے پاکستانی شہید نہیں ہوئے جتنے دہشت گردوں نے شہید کردئیے ہیں۔ جو لوگ قاتل دہشت گردوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں وہ روز قیامت سرور کائناتﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ وفاقی وزیراطلاعات سینٹر پرویز رشید نے درست کہا ہے کہ پاکستان کے دشمن بھارت نے پاکستانی قیدیوں سے وہ سلوک نہیں کیا تھا جو انسان نما درندوں نے کردکھایا ہے۔ وحشی طالبان نے ایف سی کے 23 قیدی اہلکاروں کی گردنیں کاٹ کراسکی ویڈیو بنا کر اپنے ’’شرعی کارنامے‘‘ کی فخریہ تشہیر کی ہے۔ طالبان خوف کا ہتھیار استعمال کرکے پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان کافی حد تک خوف کی فضاء قائم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں یہ خوف پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے جسے پاکستان کے چیف ایگزیکٹو اور سپہ سالار ہی ختم کرسکتے ہیں۔ سپہ سالار اپنا آئینی اور قومی فرض پورا کرنے میں پر عزم ہیں۔ وہ بوقت ضرورت جوابی کاروائی کرکے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کررہے ہیں۔ جب قومی سلامتی خطرے میں پڑ جائے تو ریاست کی پوری طاقت کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ چیف ایگزیکٹو پاکستان کو بھی شیروں کی طرح میدان جنگ میں ڈٹ جانا چاہیئے اور عوامی قوت کو منظم اور متحرک کرنا چاہیئے جب مذہبی اور سیاسی رہنما عوام کو طالبان کیخلاف احتجاج کیلئے سڑکوں پر لے آئینگے خوف اپنی موت آپ مرجائے گا اور طالبان مایوس اور نااُمید ہوکر راہ راست پر آجائینگے۔ پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لیے عوامی قوت کے ہتھیار کا استعمال ناگزیر ہوچکا ہے۔
وزارت داخلہ نے امور داخلہ کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے جو رپورٹ پیش کی ہے وہ ہوشربا ہے۔ رپورٹ کیمطابق پاکستان کا دارالخلافہ اسلام آباد انتہائی خطرناک شہر بن چکا ہے۔ اسلام آباد میں القائدہ، طالبان اور لشکر جھنگوی کے خفیہ سیل موجود ہیں۔ جدید ترین اسلحہ مغربی اور مشرقی سرحدوں سے سمگل ہوکر پاکستان کے شہروں میں پہنچ رہا ہے۔ اگر پاکستان کا دارلحکومت انتہائی خطرناک شہر بن چکا ہے تو پاکستان کے دوسرے شہروں کے بارے میں سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ کیمطابق پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سب صوبوں میں القاعدہ ، طالبان، لشکر جھنگوی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے گروپ موجود ہیں۔ بھارت دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کررہا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کو بتایا گیا کہ 6788 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل ہیں جو گھنائونے جرائم میں ملوث ہیں۔ رپورٹ کیمطابق دہشت گرد پاکستان بھر میں پھیل چکے ہیں۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک اندازے کیمطابق پاکستان کی مختلف ایجنسیوں میں کام کرنیوالے اہلکاروں کی تعداد چھ لاکھ ہے جن پر قومی خزانے کے اربوں روپے صرف ہورہے ہیں۔ یہ چھ لاکھ افراد پچاس ہزار دہشت گردوں پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔ وزارت داخلہ نے حقائق بیان کرکے عوام کو خوف زدہ تو کردیا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ خطرے سے نمٹنے کیلئے کیا اقدامات اُٹھائے گئے ہیں۔ ایف آئی اے کے قائمقام ڈائریکٹر جنرل نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ ایف آئی اے میں 1200 آسامیاں خالی پڑی ہیں اس کے پاس صرف 80 مشین گنیں ہیں جبکہ اسے 400 مشین گنوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اسکے پاس صرف 35 پستول ہیں جبکہ 500 پستولوں کی ضرورت ہے۔ ایف آئی اے کے پاس مالی وسائل کی شدید کمی ہے۔
وزارت داخلہ کی رپورٹ کیمطابق پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ پاکستان حالت جنگ میں ہے مگر حکمرانوں کی کارکردگی افسوسناک حد تک سست ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی جس قومی سلامتی پالیسی کے بارے میں بڑے پرجوش تھے وہ کئی ماہ سے وزارت قانون میں پڑی ہے۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ سے اسلام آباد میں خاص طور پر اور ملک بھر میں عام طور پر خوف و ہراس پھیل گیا۔ بیرونی سرمایہ کار اور سفارتکار تشویش میں مبتلا ہوگئے۔ اس بے چینی اور اضطراب کو زائل کرنے کیلئے وفاقی وزیرداخلہ کو طویل پریس بریفنگ کرنا پڑی جس میں انہوں نے یقین دلایا کہ اسلام آباد محفوظ شہر ہے اور پاکستان بھر میں امن و امان کی صورتحال پہلے سے بہتر ہوئی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ ایک ہی دائرے میں سفر کررہے ہیں ہردو ماہ بعد پریس بریفنگ کرکے عوام کو چند ہفتوں میں بہتری کی نوید سناتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ ان کا اپنی وزارت پر کنٹرول نہیں ہے ان کو اپنی ہی وزارت کی رپورٹ سے اختلاف کرنا پڑا۔ لٹیرے حکمرانوں نے پاکستان کو بدنیتی اور مفاد پرستی کی بناء پر سنگین بحرانوں سے دوچار کردیا ہے۔ پاکستان کو بچانے کیلئے لٹیروں سے جان چھڑانا لازم ہوچکا ہے۔ پاکستان اور لٹیرے سیاستدان اکھٹے نہیں چل سکتے۔ پاکستان کو دھرتی کے بیٹوں کی ضرورت ہے جن کا جینا اور مرنا پاکستان کیلئے ہو۔ افواج پاکستان نے روایت سے ہٹ کر ایک سرکاری رپورٹ جاری کی ہے جس کیمطابق 10 ستمبر 2013ء سے 19 جنوری 2014ء تک 460 بے گناہ اور معصوم پاکستانی دہشت گرد حملوں میں شہید ہوئے جن میں 308 سویلین، 114 فوجی اور 38 پولیس اہلکار شامل ہیں جبکہ 1264 پاکستانی شہری زخمی ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما نے الزام لگایا تھا کہ امریکی ڈرون حملوں سے مذاکرات متاثر ہوئے۔ حکومت کے دبائو پر امریکہ نے ڈرون حملے معطل کردئیے اسکے باوجود مذاکرات کا عمل شروع نہ ہوسکا اور دہشت گردی کے واقعات جاری رہے۔ جی ایچ کیو کی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ فوج کے جوابی حملوں سے کتنے دہشت گرد مارے گئے۔
سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی رہائش گاہ پر پاکستان فورم کی ایک فکری نشست ہوئی جس میں شریک سینئر صحافیوںاور دانشوروں نے اتفاق کیا کہ ٹارگٹڈ آپریشن اور مذاکرات ساتھ ساتھ چلنے چاہئیں۔ جو گروپ مذاکرات میں سنجیدہ ہوں ان سے مذاکرات کیے جائیں اور جو دہشت گردی کریں ان کیخلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن کیمطابق جامعہ اشرفیہ، جامعہ نعیمیہ، جامعہ بنوریہ اور جامعہ اکوڑہ خٹک کے علماء کا فتویٰ ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان کی ریاست کے اندر مسلح جدوجہد غیر شرعی ہے۔ میڈیا کو یہ فتویٰ اُجاگر کرنا چاہیئے اور مساجد کے خطیبوں کو بھی دہشت گردی اور ریاست کیخلاف مسلح جدوجہد کی پرزور الفاظ میں مذمت کرنی چاہیئے تاکہ وہ روزِ قیامت سرخرو ہوسکیں۔ ڈاکٹر مجید نظامی مجاہد صحافت اور نظریۂ پاکستان کے امین ہیں انہوں نے شاندار نظریۂ پاکستان کانفرنس میں شرکاء سے نظریہ پاکستان سے وفاداری کا حلف لیا اور اپنے خطاب میں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ قائداعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان ہے ہم ان انتہا پسندوں کے سامنے سرینڈر نہیں کرینگے جو اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے جسے بھارت کے شکنجے سے چھڑانا ہر پاکستانی کا قومی فرض ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی آج بھی اپنے موقف پر ثابت قدمی سے کھڑے ہیں۔ نظریہ پاکستان کے ساتھ انکی وابستگی لازوال ہے۔ نظریہ پاکستان کانفرنس میں اظہار خیال کرنیوالوں نے ان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔میں بھی ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے علامہ اقبال کا یہ شعر ان کی نذر کرتا ہوں۔
ہوا ہے گو تندو تیز لیکن چراغ اپنا جلارہا ہے
وہ مرد حق جس کو خدا نے دئیے ہیں انداز خسروانہ