صدیوں پرانی دشمنی
اگر یہ کہا جائے تو بعیداز حقیقت نہیں ہوگا کہ اسلام کے سیاسی احیاء کی تحریک کیخلاف مغرب کی جاری جنگ فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ موجودہ عالمی پس منظر اورحالیہ سیاسی حوالوں کو سامنے رکھاجائے تو لگتا ہے کہ اس جنگ کا آغاز9/11سے ہوا۔ لیکن اصل حقیقت اِسکے برعکس ہے۔ اسلام کے سیاسی احیاء کی تحریک کیخلاف بند باندھنے کا آغاز گزشتہ صدی کی ابتدائی دہائیوں میں ہوگیا تھا اس ضمن میں سب سے قابلِ ذکر نام لارنس آف عریبیا کاہے جسے ترکوں کیخلاف عربوں کا ہمدرد بنا کر مشرق وسطیٰ میں بھیجا گیا۔ دوسری طرف امریکہ نے ایلن ڈلس اور جیک فلبی کو عرب دنیا کی تقسیم اور امریکہ نواز حکومتوں کے قیام کے ایجنڈے کے ساتھ اِس خطے میں بھیجا۔ مغربی ایجنٹوں کے اس نیٹ ورک نے اپنے دو بڑے مقاصد کی تکمیل نہایت مہارت اور کامیابی کے ساتھ کی۔ ایک تو امریکہ کو اس خطے کے ’’تیل کے ذخائر‘‘ پر کنٹرول حاصل ہوگیا اور اسکے ساتھ ساتھ بالفورڈیکلریشن کے ذریعے عرب دنیا کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپنے کے منصوبے کو آخری شکل دے دی گئی۔ جو قارئین اس اسلام دشمن منصوبے کے بارے میں بھرپور واقفیت حاصل کرنا چاہیں وہ مارک انٹونیئس کی معرکتہ الاراتصنیف The Dagger of Israelکا مطالعہ کرسکتے ہیں۔بالآخر اسرائیل کا خنجر1948ء میں اسلامی دنیا کے دل میں گھونپ دیا گیا۔ دنیا کی تاریخ کا رخ موڑنے والے اس واقعہ سے ایک برس قبل اسلام کے سیاسی احیاء کی تحریک کو قیامِ پاکستان کی صورت میں ایک تاریخ ساز کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ یہاں میں سرسری طورپر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام کے سیاسی احیاء کے جدید تصور نے سب سے پہلے شام کے دارالحکومت دمشق میں جنم لیا تھا جہاں ایک وکیل نے ایک جریدہ جاری کیا تھا جس میں ایک فرضی اسلامی کانفرنس کی فرضی کارروائی کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں۔ اس سوچ کو شاعرِ مشرق علامہ اقبال ؒ نے اس مصرعے کے ذریعے مسلمانان عالم کیلئے بالعموم اور مسلمانانِ ہند کیلئے بالخصوص مشعلِ راہ بنادیا۔
’’ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے ‘‘
اسلام کے سیاسی احیاء کی تحریک میں علامہ اقبالؒ کے ساتھ ساتھ ایک بڑا نام جمالی الدین افغانی ؒ کا بھی تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس تحریک کو ایک تنظیمی ڈھانچہ فراہم کرنے میں حسن البنیٰ کی قائم کردہ اخوان المسلمین نے نہایت کلیدی کردار ادا کیا۔ گزشتہ 86برس کے دوران ’’ اخوان المسلمین ‘‘ نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے جدوجہد اور قربانیوں کی جو داستان رقم کی ہے اس پر صرف مصر کے مسلمانوں کو ہی نہیں پورے عالم ِ اسلام کو فخرکرنا چاہئے۔ اس جدوجہد کا ایک موڑ دو برس قبل مصر میں صدر محمد مرسی کی حکومت کے قیام کی صورت میں آیا اور دوسرا موڑ اِس حکومت کیخلاف اس فوجی بغاوت کی صورت میں آیاجسے امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ امریکہ نے واشگاف انداز میں دنیا کو بتا دیاکہ وہ اسلام کے سیاسی احیاء کو روکنے کیلئے اپنے تمام تروسائل بروئے کار لائے گا۔گزشتہ صدی میں ’’ اسلام کو روکنے ‘‘ کامغربی مقصد امریکی ترجیحات میں اس لئے ذرا پیچھے چلا گیا تھا کہ مغرب کی سرمایہ دارانہ سامراجیت کو چیلنج کرنیوالی دو بہت بڑی قوتیں اچانک ابھر کر سامنے آگئی تھیں۔جرمنی میں ہٹلر کا ظہور اور نازی ازم کا عروج جس طوفانی انداز میں ہوا اس کیلئے سرمایہ پرست مغرب اور اس کا سالار امریکہ پوری طرح تیار نہیں تھا۔ سامراجی اتحاد کی کافی زیادہ توانائیاں نازی جرمنی کو شکست دینے پرخرچ ہوگئیں۔
گزشتہ صدی میں سرمایہ پرست مغرب کو صرف نازی ’’ فتنہ ‘‘ ہی کچلنا نہیں پڑا ٗ کمیونزم کے ’’ فتنے ‘‘ نے بھی برسہا برس تک وہائٹ ہائوس کے مکینوں کی نیندیں حرام کئے رکھیں۔ بالآخر یہ فتنہ بھی صدی کے اختتام سے پہلے گوربا چوف اور یلسن کی مدد سے تاریخ کے کباڑ خانے میں پھینک دیا گیا۔اب باری ’’ فتنہ ء اسلام ‘‘ کی تھی۔1999ء میں نیوکون تحریک کی سرکردہ شخصیات کا ایک خفیہ اجلاس ہوا تھا جس کا ذکر ایک فرانسیسی مصنف تھائری میسین نے اپنی تصنیف ’’9/11ایک عظیم جھوٹ‘‘ میں کیا ہے۔اس اجلاس میں تین بڑی اہم تقاریر کی گئیں۔ ایک رچرڈ سٹیل کی ٗ دوسری پال وولفووٹز کی ٗ اور تیسری ڈک چینی کی۔ ان تقاریر کا لب لباب یہ تھا کہ اگر بین الاقوامی نقشے پر مغربی تہذیب کے سب سے بڑے دشمن اسلام کی پیش قدمی نہ روکی گئی اور وقت ضائع کئے بغیر Political Islam کو لگامیں نہ ڈالی گئیں تو وہ دور زیادہ دور نہیں جب ہمیں اس فتنے کوکچلنے کیلئے تیسری جنگ عظیم لڑنی پڑیگی۔ اس اجلاس میں جو کچھ کہا گیا اس پر عملدرآمدنائن الیون کے ذریعے کیا گیا۔ اس سازش یا منصوبے کی تکمیل امریکہ کے نئے صدر جارج بش کی عملی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ ڈک چینی کیلئے جارج بش کو ایک مہرے کے طور پر استعمال کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اس منصوبے کا ’’ مرکزی خیال ‘‘ یہ تھا کہ ’’ پولٹیکل اسلام ‘‘ کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کیساتھ اس شدت اور مہارت کیساتھ نتھی کردیاجائے کہ جب بھی بات اسلام کی ہو تو فوراً چشمِ تصور کے سامنے وحشت و بربریت کے مناظر گھومنے لگیں۔اس سلسلے میں سب سے اہم ذمہ داری رمسفیلڈ نے اٹھائی جو جار ج بش کے وزیر دفاع تھے۔ انہوں نے ’’ طالبان ‘‘ اور القاعدہ کی اصطلاحوں کو ’’ گالی ‘‘ کا درجہ دلانے کیلئے اپنے طالبان اور اپنی القاعدہ بنانے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس مشن کی تکمیل کیلئے انہیں کروڑوں ڈالروں کا فنڈ مہیا کیا گیا۔ اسکے علاوہ انہوں نے عسکری خدمات مہیا کرنیوالی پرائیویٹ امریکی تنظیم بلیک واٹر کی خدمات بھی بڑے پیمانے پر حاصل کیں ۔ پینٹاگون اور سی آئی اے کے ایجنٹوں کیلئے دو ’’ وار تھیٹر ‘‘ تھے۔ ایک افغانستان اور ملحقہ پاکستانی علاقہ ۔ اور دوسرا عراق۔ اس دور میں ضمیروں ٗ وفاداریوں اور خدمات کی خریداری اور فروخت جتنے بڑے پیمانے پر ہوئی اس کا اندازہ مشہور امریکی مصنف باووڈورڑکی ان تصانیف کے مطالعے سے لگایا جاسکتا ہے جو ’’ وارآن ٹیرر‘‘ کے حوالے سے لکھی گئیں۔ آج کا پاکستان متذکر ہ منصوبے کی کامیاب پیش رفت کی منہ بولتی تصویر بناہوا ہے۔
آصف علی زرداری کے دور میں اس منصوبے کو آگے بڑھانے کیلئے واشنگٹن اور لندن کو حسین حقانی اور رحمان ملک جیسے موثر اور نتائج آفرین آپریٹو بھی میسر ہوگئے۔ اس ضمن میںان ہزاروں ’’ سفارت کاروں‘‘ کو جاری کردہ ویزوں کا ذکر کرنا ہی کافی ہے جن کیلئے پاکستان نہایت خطرناک اور پراسرار سرگرمیوں کا اڈہ بن گیا۔ آج بھی نجانے کتنے ریمنڈڈیوس کس کس پلیٹ فارم سے کیسی کیسی خدمات کی ادائیگی میں مصروف ہونگے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ انکے نام غیر ملکی ہوں۔ ہمارے اپنے ملک میں اور ہماری اپنی صفوں میں ایسے ’’ خدمات فروش ‘‘ کثرت کے ساتھ موجود ہیں جن کے نام تو اسلامی ہیں لیکن جن کی تمام تر قوتیںاور صلاحیتیں اس ’’ موقف ‘‘ اور ’’ تاثر ‘‘ کو پھیلانے پر صرف ہورہی ہیں کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ریاست اور سیاست سے اسلام کا لفظ خارج کرنا لازمی ہے۔ یہی وہ ’’ خدمات فروش ‘‘ ہیں جو جانے پہچانے امریکی فرمان Do-moreعملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔میں یہاں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا۔ لیکن اس امریکی تنظیم کا ذکر ضرور کروں گا جس نے )Islam Bashing اسلام پر فکری یلغار(کیلئے خاصے بڑے قلمکاروں اور دانشوروں کی خدمات حاصل کررکھی ہیں۔دو نام اس ضمن میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ ایک تو سیم ہیرس جس نے اپنی مشہور تصنیف The End of Faith میں لکھا تھا ۔ ’’ دہشت گردی اسلام کی گھٹی میں شامل ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ تہذیب و تمدن کو خطرہ صرف اسلام کے انتہا پسندوں سے ہے۔ انتہا پسند تو بے نقاب ہوچکے ہیں۔ حقیقی خطرہ ان مسلمانوں سے ہے جنہوں نے اعتدال پسندی کا لبادہ اوڑھ رکھاہے۔ جس دین کی بنیادی کتاب دہشت گردی کی تعلیم دیتی ہو اس میں اعتدال پسند کیسے پیدا ہوسکتے ہیں؟ مغرب کو اعتدال پسندی کے نعرے سے متاثرنہیں ہونا چاہئے۔ ہمارا اصل دشمن اسلام ہے۔‘‘ دوسرا نام ملٹن ویورسٹ کا ہے جس نے اپنی تصنیف The Shadow of the Prophet میں لکھا ہے۔ اگر اسلام کو مہم جوئی اور دہشت گردی سے روکنا ہے تو اسکی بنیادی کتاب قرآن کو نظرثانی کے عمل سے گزارنا ضروری ہوگا۔ دنیا کے امن کیلئے قرآن کو ’’ ری رائٹ ‘‘ کرنا ضروری ہے۔‘‘ کیا یہ حقیقت المناک نہیں کہ ہماری صفوں میں سیم ہیرس اور ملٹن ویورسٹ کے ہم خیال دندناتے پھررہے ہیں ؟ حقیقت یہی ہے کہ جس جنگ کا ہمیں سامنا ہے اسکے پس منظر میں صدیوں پرانی دشمنی کا رفرما ہے۔ ہمارے مشرق میں بھارت اور مغرب میں مغرب واقع ہے!