فوجی آپریشن کے دوران شہروں کی سکیورٹی سخت کی جائے
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے حملے جاری رہنے کی صورت میں طالبان سے مذاکرات کرنا متاثرین کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔۔
حکومت نے 29 جنوری کو صدقِ دل سے مذاکرات کیلئے کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ طالبان کے ساتھ مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کیا جا سکے لیکن طالبان نے حکومت کی مذاکرات کی پیشکش کو کمزوری سمجھ کر 23 سکیورٹی اہلکاروں کو قتل کر دیا۔ اس سے قبل کراچی میں بلاول ہاؤس کو جانیوالی پولیس کی سکیورٹی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حالات میں مذاکرات کا چلنا مشکل تھا۔ طالبان پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں نہ ہی امن قائم کرنے کی طرف آتے ہیں۔ ان حالات میں ان کا علاج تو یہی ہے جو فوج نے میرعلی اور باڑہ میں کیا ہے۔ مٹھی بھر انتہا پسند 18 کروڑ عوام کو یرغمال بنانے کی کوششوں میں ہیں، یہ نہیں ہو گا۔ مذاکرات کرنے کیلئے طالبان کو غیرمشروط ہتھیار پھینکنا ہونگے۔ پہلے طالبان نے کیلاش کمیونٹی کو کہا کہ اسلام قبول کرو یا مرنے کیلئے تیار ہو جاؤ، اب پاک فوج انہیں کہتی ہے کہ آئین کے سامنے سرنگوں ہو جائو یا پھر جنگ کیلئے تیار رہو۔ حکومت نے آپریشن شروع کر دیا ہے لیکن اس آپریشن کے تناظر میں ملک بھر کی سکیورٹی سخت کرنا ہو گی۔ بڑے شہروں کے داخلی اور خارجی راستوں پر چیکنگ کے نظام کو سخت کیا جائے۔ عوامی مقامات، سکولز، کالجز اور سرکاری املاک کی سکیورٹی سخت کی جائے تاکہ شرپسند دھماکے کر کے افراتفری نہ پھیلا سکیں۔