قومی اسمبلی :93 حلقوں کی پولنگ سکیم ‘ انتخابی نتائج کی دستاویز میں 2 لاکھ46 ہزار ووٹروں کا فرق تھا: فافن
اسلام آباد (آن لائن) انتخابی عمل کو مئوثر اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چاہئے کہ وہ رائے دہندگان خصوصاً خواتین کی فہرستوں میں موجود تضادات کو دور کرنے، پولنگ سکیم کو بروقت حتمی شکل دینے اور انتخابی نتائج کو بہتر کرنے جیسے فوری اور مئوثر اقدامات کرے۔ یہ بات جمعہ کوفری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشویش کی اہم ترین وجہ ملک میں کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز کے اجراء میں بہتری کے باوجود 2013 کے عام انتخابات کے دوران قومی اسمبلی کے 100 حلقوں میں 2008 کے عام انتخابات کے مقابلے میں ٹرن آئوٹ کم رہا۔ انتخابات سے 2 ہفتے قبل پولنگ سکیم کو حتمی شکل دینا الیکشن کمیشن کی قانونی ذمہ داری ہے اور ریٹرننگ آفیسر اسے الیکشن کمیشن کی اجازت کے بغیر تبدیل نہیں کرسکتا۔ اور اگر اسے تبدیل کرے تو تمام متعلقہ اداروں کو بروقت آگاہ کرنا اُس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ فافن کو اپنے تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ قومی اسمبلی کے 93 حلقوں میں حتمی پولنگ سکیم اور انتخابی نتائج کی دستاویز میں 246,858 رائے دہندگان کا فرق ہے جو بہت بڑا تضاد ہے۔ ان 93 حلقوں میں سب سے زیادہ 57 حلقے پنجاب سے ہیں جہاں حتمی پولنگ سکیم اور انتخابی نتائج کے فارم میں درج رائے دہندگان کی تعداد میں تضاد پایا گیا جبکہ16 حلقے خیبر پی کے، سندھ کے 15، فاٹا کے 4 اور اسلام آباد کا ایک حلقہ شامل ہیں۔ انتخابات کے فوراً بعد الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ انتخابی نتائج کے ساتھ ساتھ فارم 14، فارم 15، فارم 16 اور فارم 17 بھی جاری کرے تاکہ انتخابی عمل کی شفافیت یقینی بنائی جاسکے۔ اس عمل کی ضرورت اس امر سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ حالیہ انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر شائع کئے گئے فارم 17 پر مُسترد ووٹوں کی تعداد اور جیتنے والے اُمیدواروں کے سرکاری نتائج میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد درج نہیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ ایسے انتخابی حُکام جن کے مرتب کردہ نتائج میں تضادات ہیں انہیں ذمہ دار ٹھہرائے اور اُن کے خلاف سخت اقدامات کرے تاکہ مستقبل میں انتخابات کے دوران ایسی بے قاعدگیوں سے بچا جا سکے۔ مسترد ووٹوں کی تعداد 2002 میں 775,720، 2008 میں 973,694 تھی جبکہ 2013 میں 64 فیصد کے واضح اضافہ کے ساتھ زیر مشاہدہ 266 حلقوں میں مسترد ووٹوں کی تعداد 1,502,717 تک جا پہنچی۔ رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے زیرمشاہدہ 266 حلقوں میں ٹرن آئوٹ کی شرح حوصلہ افزاء رہی۔ 266 حلقوں میں متوازی گنتی کے مطابق (0.03 فیصد کمی بیشی کے امکان کے ساتھ) شہری اور دیہی حلقوں کا مجموعی ٹرن آئوٹ 54.7 فیصد رہا۔ رپورٹ میں ٹرن آئوٹ کا شہری و دیہی تقابلی جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 2008 کے انتخابات کے مقابلے میں شہری حلقوں کے ٹرن آئوٹ میں 17 فیصد کا واضح اضافہ ہوا۔ سندھ میں زیادہ تر نتائج گزشتہ انتخابات جیسے ہی رہے جہاں دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی کا پلہ بھاری رہا جبکہ شہری علاقوں خصوصاً کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی اکثریت برقرار رکھی تاہم دوسرے تمام صوبوں میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ تبدیلی کی خواہش کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ملا۔ بلوچستان میں پختون اور بلوچ قوم پرست جماعتوں نے ایک بار پھر جگہ بنائی۔ مذہبی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام(ف) نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے نمایاں نشستیں حاصل کیں۔ سندھ کے علاوہ انتخابات میں عوام کی طرف سے پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا۔ 2013 کے عام انتخابات میں 266 حلقوں میں 4462 امیدواروں نے حصہ لیا۔ سب سے زیادہ 230 حلقوں سے امیدوار تحریک انصاف نے کھڑے کئے جس کے بعد پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے 227 حلقوں میں امیدوار سامنے آئے۔ مسلم لیگ (ن) 215 امیدواروں کے ساتھ تیسرے اور متحدہ قومی موومنٹ 207 امیدواروں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہی۔ آزاد امیدواروں کی تعداد 2343 رہی جبکہ دیگر جماعتوں نے مجموعی طور پر 1240 امیدوار میدان میں اُتارے۔ خواتین امیدواروں کی تعداد 161 رہی جو کہ 2002 اور 2008 کے انتخابات میں شریک خواتین امیدواروں سے واضح طور پر زیادہ تھی۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے 15 خواتین کوٹکٹ جاری کئے جبکہ مُتحدہ قومی موومنٹ نے8، مسلم لیگ (ن)7 ، تحریک انصاف 6 اور پاکستان مسلم لیگ نے 2 خواتین کو ٹکٹ جاری کئے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ عام انتخابات کے دوران پورے ملک میں 15 لاکھ ووٹ مسترد کئے گئے، 35 حلقوں میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد جیتنے اور ہارنے والے امیدوار کے درمیان فرق سے بھی زیادہ تھی۔ 35حلقوں میں مستر د ووٹوں کی تعداد ہارنے اور جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں کے فرق سے بھی زیادہ رہی تاہم راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 53 میں کوئی ووٹ مسترد نہیں ہوا۔15 لاکھ سے زائد ووٹر گھروں سے نکلے۔ ووٹ بھی ڈالا،لیکن ضائع کردیا۔ایسا نہ ہوتا تو قومی اسمبلی کی 35 نشستوں کے نتائج بدل سکتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق این اے 53 راولپنڈی میں کوئی ووٹ مسترد نہیں ہوا۔ دوسری جانب بلوچستان کے حلقے این اے 266 میں 25 ہزار 9 سو سے زائد ووٹ مسترد ہوگئے۔