دہشت کے بیج سے امن کی فصل نہیں پکتی‘ اہلسنت مشائخ‘ مذاکرات ختم‘ ملک گیر آپریشن کیا جائے: سنی اتحاد کونسل
اسلام آباد (ثناء نیوز) ملک کے ممتاز سرکردہ اہلسنت مشائخ نے ملکی حالات کے حوالے سے اتفاق رائے سے اعلان کیا ہے کہ دہشت کے بیج سے امن کی فصل نہیں پکتی، ملک گیر نمائندہ مشاورتی اجلاس میں ’’سدا سلامت پاکستان‘‘ مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں واضح کیا گیا کہ مشائخ اس نازک گھڑی میں اپنے فرض سے غافل نہیں، پاک فوج اور حکومت کے شانہ بشانہ ہیں۔ وزیراعظم قائدانہ کردار ادا کریں قوم انہیں مایوس نہیں کریگی۔ مشائخ کا یہ نمائندہ ہنگامی اجلاس وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر محمد امین الحسنات کی زیر صدارت ہوا، ملکی موجودہ صورتحال کے پیش نظر مشاہیر کے درمیان مشاورت کی گئی۔ سابق وفاقی وزیر صاحبزادہ نور الحق قادری، پیر نقیب الرحمن، پیرشمس الا مین، صاحبزادہ ساجد الرحمن، صاحبزادہ حبیب الرحمن، پیر نقیب الرحمن، پیر زاہد صدیق شاہ، پیر مشتاق الازہری، شعیب شاہ، پیر حیات الامیر، صاحبزادہ فیض الحسن، خواجہ حمید الدین معظمی، پیر محمد اکرم شاہ جمالی، ابوبکر چشتی، حسنین فاروق شاہ، ذاکر شاہ، غلام مرتضیٰ شازی، پیر مطلوب الرسول، ممتاز احمد ضیاء نے شرکت کی۔ اجلاس کے بارے میں جاری بیان کے مطابق وزیر مملکت مذہبی امور پیر محمد امین الحسنات شاہ نے ملائیشیا سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آخری وقت تک امن کا آپشن کھلا رکھے گی۔ ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت سے پوری قوم غم و غصے کا شکار ہے۔ صاحبزادہ نور الحق قادری نے کہا کہ امن کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ایک گروہ بندوق کے زور پر اپنی دلی خواہشات کو شریعت کا نام دیکر مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جو ممالک دہشت گردوں کو فنڈنگ کر رہے ہیں ان سے سفارتی تعلقات کے حوالے سے نظرثانی کی جائے۔ پیر نقیب الرحمن نے کہا جہاد کے نام پر فساد سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کی روک تھام کے لئے موثر قانون سازی کی جائے۔ صاحبزادہ حبیب الرحمن نے کہا پاکستان کے اہم اداروں کو طالبان اور القاعدہ پوشیدہ عناصر سے پاک کیا جائے۔
لاہور (سپیشل رپورٹر) سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے 500 سے زائد علماء و مشائخ کے دستخطوں کے ساتھ وزیراعظم پاکستان کو خصوصی خط ارسال کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت ریاست مخالف دہشت گردوں سے مذاکرات ختم کرنے کا دوٹوک اعلان کرے اور ملکی سلامتی کے تحفظ کے لئے ریاست کے باغیوں کے خلاف ملک گیر آپریشن کا فیصلہ کیا جائے۔ پاک فوج کو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فری ہینڈ دیا جائے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر متفقہ نیشنل سکیورٹی پالیسی وضع کی جائے۔ پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے دہشت گردوں کے حامیوں، ہمدردوں اور سرپرستوں کو ریاستی گرفت میں لایا جائے اور پورے ملک میں ریاستی رٹ قائم کرنے کے لئے جرأت مندانہ اقدامات کئے جائیں۔ پچاس ہزار شہداء کے قاتلوں سے مذاکرات شریعت اور آئین کے منافی ہیں۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے طالبان پر شرعی مقدمہ چلایا جائے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی مصلحتوں اور بزدلی کی وجہ سے دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور مذاکرات کے اعلان کے بعد دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔ حکومت اپنے شہریوں کے تحفظ کے آئینی تقاضے پورے کرے، دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو نتیجہ خیز بنایا جائے اور کارروائی کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے کیونکہ ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والے دہشت گردوں کو سبق سکھانا ضروری ہو گیا ہے ۔ فوجیوں کے گلے کاٹنے والے کسی رحم اور رعایت کے مستحق نہیں۔ مساجد، مدارس، مزارات، ہسپتالوں، مارکیٹوں، جنازوں، پولیو ورکرز، غیرملکی کھلاڑیوں اور سیاحوں پر حملے کرنے والے گمراہ ہی نہیں ملک و اسلام دشمن بھی ہیں۔ طالبان کے ایک تہائی کراچی پر کنٹرول اور اسلام آباد میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کی اطلاعات تشویشناک ہیں۔ طالبان کو سرکاری طور پر غدارانِ پاکستان قرار دیا جائے۔