طالبان کیخلاف آپریشن کیلئے سیاسی حلقوں کا دبائو بڑھ گیا، متحدہ کی ریلی نے کسر پوری کردی
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) سیاسی حلقوں کی طرف سے طالبان کیخلاف ’’فوجی آپریشن‘‘ کرنے کیلئے دبائو بڑھ گیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت طے شدہ پالیسی کے تحت حکومت کو طالبان کیخلاف فوجی آپریشن شروع کرنے پر اُکسا رہی ہے۔ رہی سہی کسر ایم کیو ایم نے فوجی آپریشن کیلئے کراچی میں بڑی ریلی نکال کر پوری کردی۔ ذرائع کے مطابق جن سیاسی جماعتوں نے حکومت کو طالبان کے ساتھ ’’مذاکرات کی میز‘‘ سجانے کی حمایت کی تھی، انہوں نے بدلتی صورتحال میں طالبان سے مذاکرات کی حمایت واپس لے لی ہے۔ وہ بھی اب حکومت کو کھلم کھلا فوجی آپریشن پر مجبور کررہی ہیں۔ وزیراعظم ڈاکٹر محمد نوازشریف اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان فوجی آپریشن شروع کر کے خود کو ایسی دلدل میں نہیں پھنسانا چاہتے جس سے ان کیلئے نکلنا مشکل ہوگا۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے طالبان کیخلاف جوابی کارروائی کیلئے محدود فضائی حملوں کی اجازت دی، وہ حالت جنگ میں بھی امن کو ایک موقع دینا چاہتے ہیں لیکن انکو اس بحران سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ عسکری حلقے بھی ’’سرکش طالبان‘‘ کیخلاف آہنی ہاتھ سے نمٹنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم ایک بار آپریشن کا فیصلہ موخر کرچکے ہیں وہ مارچ 2014ء کے اوائل میں طالبان کیخلاف فیصلہ کن آپریشن شروع کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ حکومتی حلقوں میں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں اسلام آباد، لاہور سمیت بڑے شہروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان ٹیلیفون کی سطح پر رابطہ منقطع ہونے سے جہاں طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان میں تشویش پائی جاتی ہے وہاں جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے بھی وزیراعظم محمد نوازشریف کی مشکلات کا ذکر کیا اور اب تک کے انکے طرزعمل کو سراہا ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات برملا کہی جا رہی ہے۔ عسکری قیادت امن کیلئے مذاکرات کو مزید موقع نہیں دینا چاہتی ہے۔ وہ پوری قوت سے طالبان کی شورش کو کچلنے کا آپشن استعمال کرنا چاہتی ہے۔ عسکری حکام نے مارچ میں فوجی آپریشن مکمل کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ تاہم وزیراعظم اور وفاقی وزیر داخلہ آپریشن کو مسلسل مؤخر کر رہے ہیں۔ انہیں سیاسی اور عسکری قوتوں کی جانب سے آپریشن کا مطالبہ قبول کرنا پڑیگا۔