مذاکراتی کمیٹیوں کے قیام کا مقصد آپریشن کی راہ ہموار کرنا تھا: حافظ حسین احمد
بھیرہ (نامہ نگار) حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کا قیام آپریشن کی راہ ہموار کرنے کے لئے ترتیب دیا گیا۔ اس سلسلہ میں جے یو آئی نے واضح مؤقف اپنایا اور مذاکراتی کمیٹی سے اپنے رکن کا نام واپس لے لیا۔ آرمی چیف کی جانب سے امریکی اور نیٹو افواج کو کم از کم چھ ماہ تک افغانستان میں اپنے قیام کی مدت بڑھانے کی درخواست ملکی سلامتی پر سوالیہ نشان ہے ۔ ملک میں اس وقت دو طبقات نبرد آزما ہیں آرمی اور حکومت کو اس سلسلہ میں اپنا مؤقف واضح کرنا ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی کے رہنما سابق سینیٹر حافظ حسین احمد نے مدرسہ عمر فاروق بھیرہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا ۔اس موقع پر مولانا یعقوب احسن ، قاری محمد یامین انصاری ، علامہ شبیر احمد عثمانی ، چوہدری محمد انور فواد ، قاری مشتاق احمد زاہد ، قاری کفایت اللہ سالک اور جمعیت کے دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ آرمی چیف کے مطالبہ پر نہ وزیر اعظم اور نہ ہی وزیر دفاع کی جانب سے کوئی بیان آیا۔ حکومت اور فوج اس سلسلہ میں اپنی پوزیشن واضح کرے ۔حکومت اور طالبان کی جانب سے مذاکرات کے لیے نامزد کردہ کمیٹیوں کی تشکیل کے باوجود نیٹو افواج کو مزید قیام کی دعوت ناقابل فہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں حکومتی رٹ موجود نہیں ان سے قبائلی سسٹم جرگہ کے تحت مذاکرات کئے جائیں جو ملکی سلامتی کے لئے بہتر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان پر آئین پاکستان کو نہ ماننے کا الزام ہے اس لیے ان پر فوج بمباری کر رہی ہے جبکہ پرویز مشرف جس نے آئین پاکستان توڑا اس کو فوج بچا رہی ہے اور اس پر فرد جرم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری پانچ سال بر سراقتدار رہنے والے اپنے باپ سے اپنی والدہ کے قاتلوں کا پتہ پوچھے۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی کے سینیٹر حاجی عدیل کی جانب سے پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ کی بجائے عوامی جمہوریہ رکھنے کے مطالبہ پر جے یو آئی نے آٹھ ارکان ہونے کے باوجود ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان بر قرار رکھا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے تمام اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا ہے ۔ قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں وہ اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دیں تو ان کا تحفظ ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہو گی۔