• news

کراچی: ٹارگٹڈ آپریشن‘ گرفتاریوں کے باوجود دہشت گردی جاری ‘ ملزم جیلوں سے نیٹ ورک چلا رہے ہیں: سپریم کورٹ

کراچی (این این آئی+ آن لائن) سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے پولیس کی رپورٹ مسترد کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کراچی میں آپریشن کے دوران بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے باوجود دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔گرفتار ملزم جیلوں سے بیٹھ کر دہشت گردی کا نیٹ ورک چلارہے ہیں۔6ماہ سے کراچی میں آپریشن جاری ہے، پولیس صرف عدالتوں میں چالان پیش کرنے پر ہی اکتفا کررہی ہے۔ سپریم کورٹ نے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف وزری کرتے ہوئے تعیناتی پر نوٹس لیتے ہوئے بدھ تک آئی جی سندھ سے جواب طلب کرلیا ہے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بدامنی کیس کی سماعت چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کی۔ پولیس کی جانب سے کراچی آپریشن کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل آئی جی شاہد سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے کراچی بدامنی کیس کے حوالے 29نومبر کے احکامات پر کتنا عمل درآمد ہوا ہے ؟ ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات نے چیف جسٹس کے استفسار بتایا کہ175ملزموں کے چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کئے گئے ہیں، جس میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے 149اور 11مقدمات اغواء برائے تاوان کے شامل ہیں۔ رپورٹ میں ایڈیشنل آئی جی نے بتایا کہ آپریشن میں 10ہزار ملزم گرفتار کئے گئے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ایڈیشنل آئی جی سے استفسار کیا کہ باقی گرفتار ملزم کہاں ہیں ؟ ایڈیشنل آئی جی نے بتایا کہ 7ہزار سے زائد مقدمات سیشن کورٹس میں چل رہے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں پرانے مقدمات کو ترجیحی بنیاد پر سن رہی ہیں، نئے مقدمات سننے کا عدالتوں کے پاس وقت نہیں ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ ایسا کوئی قانون نہیں کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں نئے مقدمات نہیں سن سکتیں۔ تفتیشی ادارے بروقت عدالتوں میں تفتیشی رپورٹس پیش کریں۔ عدالتیں ملزموں کو سزائیں دینے کے لئے ہی موجود ہیں۔ انہوں نے ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات سے استفسار کیا کہ جیلوں میں ملزموں کی جانب سے موبائل فون استعمال کرنے کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟ ایڈیشنل آئی جی نے جواب دیا کہ جیلوں میں جیمرز نصب کردیئے ہیں۔ اب ملزموں کے ٹیلی فون استعمال کرنے کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ جیلوں میں جیمرز نصب کیے ہیں تو اطراف کی آبادی بے حد متاثر ہے۔ کون کون سے ایسے علاقے ہیں جو جیل میں جیمرز لگانے کے باعث متاثر ہوئے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی نے جواب دیا کہ سینٹرل جیل کے اطراف میں غوثیہ کالونی، حیدرآباد کالونی، پی آئی بی کالونی اور دیگر علاقے متاثر ہورہے ہیں۔ عدالت نے ہدایت کی کہ جیلوں میں کم رینج کے جیمرز نصب کئے جائیں تاکہ آس پاس کی آبادی متاثر نہ ہو۔ ایڈیشنل آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ احکامات پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی دوبارہ تعیناتی کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی سے جواب طلب کرلیا۔ ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات نے عدالت کو بتایا کہ راؤ انوار کو خلاف تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے کلیئر قرار دیئے جانے کے بعد ان کی تقرری کی ہے۔ عدالت نے کہا کہ کوئی بھی انفرادی عہدے دار عدالت کے فیصلے کے خلاف نہیں کام کرسکتا۔ عدالت نے ایس ایس پی راؤ انوار کو معطل کیا تھا دوبارہ تعیناتی کے احکامات بھی عدالت ہی دے سکتی ہے ۔سپریم کورٹ نے سانحہ عباس ٹاؤن کیس میں ایس ایس پی راؤ انوار کے عہدے سے معطل کرنے کے احکامات جاری کیے تھے ۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 26فروری تک ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران پولیس کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ پولیس ملزموں کو حراست میں تو لے لیتی ہے لیکن ان کے خلاف مقدمات نہیں چلاتی جس کی وجہ سے وہ جیلوں میں بیٹھ کر  نیٹ ورک چلارہے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات نے پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ کراچی میں آپریشن کے دوران 10ہزار سے زائد ملزم گرفتار کئے، جن میں سے 175 سے زائد کے چالان انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کئے جاچکے ہیں تاہم عدالتیں پرانے مقدمات کی سماعت کررہی ہیں نئے مقدمات زیر سماعت نہیں، سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون میں کہیں ایسا نہیں لکھا کہ عدالت پہلے نئے کیسوں کی سماعت کرے۔ سپریم کورٹ  نے گرفتار ملزموں کے عدالتوں میں جاری مقدمات کی رپورٹ روزانہ کی بنیاد پرپیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے راؤ انوار کی ایس ایس پی ملیر تعیناتی پر بھی وضاحت کیلئے آئی جی سندھ کو طلبی کا نوٹس جاری کردیا۔    چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہاکہ کراچی میں 6 ماہ سے ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے لیکن قتل و غارت گری رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ دریں اثناء کراچی میں زمینوں پر قبضے کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کراچی میں سرکاری زمینوں پر قبضے ایس پی سطح کے افسروں کی سرپرستی میں کئے جارہے ہیں۔ ممبر بورڈ آف ریونیو سے استفسار میں عدالت نے کہاکہ کراچی میں کل کتنا رقبہ ہے جو تاحال قبضہ مافیا سے نہیں چھڑایا جاسکا ؟ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کراچی میں زمینوںپر قبضے کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو وقار شاہ نے رپورٹ میں بتایا کہ کراچی کی 60ہزار ایکڑ زمین قبضہ مافیا کے ہاتھوں میں ہے، ان میں سے 52ہزار ایکڑ زمین وفاقی اور صوبائی اداروں کے قبضے میں ہے باقی 8ہزار ایکڑ زمین گوٹھوں اور دیگر قبضہ گروپوں کے ہاتھ میں ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ زمینوں کے اصل مالک دھکے کھارہے ہیں لیکن قبضہ مافیا سرکاری عہدے داروں کی سرپرستی میں زمینوں پر قبضہ گاڑھے بیٹھے ہے۔ عدالت کے استفسار پر وقار شاہ نے بتایا کہ 1995ء سے 2000ء تک قبضہ شدہ زمین نقشہ مرتب کرلیا گیاہے۔ زمینوں پر سے قبضہ چھڑانے کا کام جاری ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ہم بھی اسی شہر کے رہنے والے ہیں۔ اس شہر میں ایس پی انکروچمنٹ زمینوں پر قبضے کرانے میں سرپرستی کرتا ہے۔ عدالت نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی زمینوں پر قبضے سے متعلق رپورٹ وصول کرنے کے بعد ایس ایس ایس پی اینٹی انکروچمنٹ عارف عزیز ،ڈائریکٹر کے پی ٹی، پورٹ قاسم، ڈی ایچ اے، ایم ڈی اے اور دیگر کو 26فروری کو طلب کرلیا ۔سپریم کورٹ میں حکومت سندھ نے کہا کہ کراچی میں 25 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن رہتے ہیں جس کی وجہ سے شہر کی صورتحال سنگین ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلا نی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتاح ملک نے حکومت کا موقف بیان کیا۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلا نی نے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ کیا کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن سے صورت حال میں بہتری آئی ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل عبدالفتاح ملک کا کہنا تھا کہ غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں ہزاروں ملزموں کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن انہیں تاحال سزا نہیں مل سکی۔ خصوصی عدالتوں کے ججوں کا موقف ہے کہ وہ نئے مقدمات کی سماعت کی بجائے پہلے والے مقدمات نمٹائیں گے۔ عدالت نے حکم جاری کیا کہ قبضہ ختم کرانے سے متعلق تمام ڈپٹی کمشنروں نے کیا کارروائی کی اس سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

ای پیپر-دی نیشن