• news

سیاسی و انتظامی اقدامات اٹھائے بغیر آپریشن تباہ کن ہوگا: اسلم بیگ

لاہور (اشرف ممتاز) سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن اس وقت تک تباہ کن ثابت ہوگا جب وہاں سے عسکریت پسندوں کے خاتمے کے بعد حکومت ضروری انتظامی اقدامات نہ اٹھائے۔ ’’دی نیشن‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا آپریشن کلین اپ کے بعد وہاں سول عدالتوں کے قیام اور سول انتظامیہ کے ہاتھ مضبوط کرنے میں حکومت کی ناکامی سے عسکریت پسندوں سے ہمدردی رکھنے والوں کو پورے ملک میں پھیلنے اور دہشت گردانہ کارروائیوں کا موقع مل جائے گا۔ انہوں نے کہا اس وقت قبائلی علاقوں میں فوج کی 6 ڈویژن موجود ہیں جن میں مشرقی سرحد کیلئے تعینات اہلکار بھی شامل ہیں۔ اگر فوج آپریشن کی دلدل میں پھنس جاتی ہے تو مشرقی سرحد پر دفاع بُری طرح متاثر ہوگا اور ملک کے دشمنوں کو خوشیاں مناے کا موقع مل جائے گا۔ موجودہ حالات میں بات چیت ہی سب سے بہتر آپشن ہے۔ فوجی آپریشن کے بعد شدت پسندوں کا ردعمل بھی ہوگا۔ طالبان کمانڈر عصمت اللہ شاہین کے مارے جانے کے حوالے سے سابق آرمی چیف نے کہا کہ یہ 23 ایف سی اہلکاروں کے اندوہناک قتل کا ردعمل نظر آتا ہے۔ فوج طالبان کو سبق سکھانا چاہتی ہے۔ اسی لئے ایک کے بعد ایک طالبان رہنما مارے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن سے پہلے حکومت کو اسی طرح کی ماضی کی کارروائیوں کے نتائج کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے جن میں ملک کے دولخت ہونے کا نتیجہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا  کہ بینظیر حکومت میں 1973ء میں آپریشن کے دوران افغانستان فرار ہونے والے بلوچ رہنمائوں کو معافی کا اعلان کیا تھا اور ان رہنمائوں نے واپس آکر حکومت کیلئے پریشانی پیدا نہیں کی۔ اگر اب حکومت قبائلی علاقوں کے لوگوں کی واپسی کا ماحول پیدا کر دے تو ان کی جانب سے مثبت ردعمل کی توقع کی جا سکتی ہے۔ فوج کیلئے شدت پسندوں کا خاتمہ مشکل نہیں۔ اصل چیلنج جب درپیش ہوگا جب حکومت آپریشن کے بعد ان علاقوں میں قانون کی پاسداری کیلئے ضروری اقدامات نہیں اٹھا سکے گی۔ قبائلی علاقوں میں بیرونی عناصر موجود ہیں اور دنیا میں کہیں کی بھی شہریت نہ رکھنے والوں کے پاس لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلاء کے بعد کے جہادیوں کو کوئی ملک بھی قبول نہیں کر رہا۔ لہٰذا وہ قبائلی علاقے نہیں چھوڑ رہے۔ انہوں نے کہا پاکستان کو افغانستان میں موجود طالبان رہنما فضل اللہ اور خراسانی کے خلاف کارروائی کیلئے امریکہ کو کہنا چاہئے کیونکہ یہ پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ اگر امریکہ اس حوالے سے متحرک نہیں ہوتا تو پاکستان کیلئے ان کے خلاف کارروائی کا جواز پیدا ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا قبائلی علاقوں میں 400 سے زائد مسلح عسکریت پسند نہیں مگر اگر انہیں ٹارگٹ کیا گیا تو یہ سارے ملک میں پریشانی پیدا کر سکتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن