لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کاغذی کارروائی نہیں اقدامات ہونے چاہئیں: جسٹس جواد خواجہ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت ) سپریم کورٹ میں متفرق لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت پر لاپتہ شخص خاور محمود کے بازیاب ہو نے کے بعد عدالت میں پیش ہونے پر کیس نمٹا دیا گیا جبکہ ایک اور لاپتہ شخص پرویز کے مقدمہ کی سماعت تین ہفتوں کے لئے ملتوی کر دی گئی جب کہ ادھر عدالت نے لاپتہ شخص اخونزادہ کیس کی سماعت 5 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے وفاق کو سیکرٹری فاٹا کے ذریعے تحقیقات کر کے مذکورہ شخص کی بازیابی کے اقدامات کرنے اور 10 روز میں ایف آئی آر درج کرانے کی ہدایت کی ہے۔ لاپتہ شخص پرویز احمد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کاغذی کارروائی نہیں اقدامات ہونے چاہئیں ٗ خلوص اور محنت سے کام کیا جاتا تو اب تک متعدد لاپتہ افراد بازیاب ہو چکے ہوتے مگر حکومت نے کوشش ہی نہیں کی۔ پیر کو پرویز احمد کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بنچ نے کی۔ اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ اس معاملے میں پولیس تحقیقات کر رہی ہے، جس کے لئے مزید تین ہفتے درکار ہیں، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ مقدمے کی سماعت تین ہفتوں کے لئے ملتوی کی جائے۔ اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پولیس اب متحرک ہوئی ہے، اگر ایسا پہلے ہو جاتا تو اب تک لاپتہ فرد سے متعلق معلومات مل چکی ہوتیں۔ خاور محمود کی بازیابی پر عدالت نے ان کی اہلیہ سعدیہ بی بی سے استفسار کیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ یہی ان کے شوہر خاور محمود ہیں۔ لاپتہ شخص اخونزادہ کیس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے زاہد لطیف قریشی عدالت میں پیش ہوئے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے عدالت کو بتایا کہ حراستی مراکز میں لاپتہ اخونزادہ کی تلاش کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہمیں شبہ ہے کہ یہ قبائلی علاقوں کے حراستی مرکز میں نہ ہو۔ انہوں نے لاپتہ شخص اخونزادہ کے بھائی حافظ رمضان کا بیان بھی عدالت میں پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ اخونزادہ کو سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد نے اٹھا کر فوج کے حوالے کیا ہے۔ اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ایجنسی کی حراست میں ہو۔ فاضل جج نے استفسار کیا کہ کیا لاپتہ اخونزادہ کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کی گئی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے نے بتایا کہ ایف آئی آر درج نہیں ہوئی کیونکہ خیبر پی کے کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں قانون موجود ہے، پولٹیکل ایجنٹ بھی موجود ہیں، پھر وہاں ایف آئی آر درج کیوں نہیں ہوئی؟