سکیورٹی پالیسی 3 حصوں میں تقسیم ‘ انٹیلی جنس نیٹ ورک بنیادی نکتہ ہو گا
اسلام آباد (محمد نواز رضا/ وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں طالبان کے خلاف ’’فوجی آپریشن‘‘ کے ساتھ بات چیت کا آپشن اوپن رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر داخلہ آج قومی اسمبلی میں قومی سلامتی پالیسی کی تفصیلات بیان کریں گے۔ قومی سلامتی کی پالیسی میں مذاکرات کی میز پر آنے والے طالبان سے بات چیت کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم اس بات کا حتمی فیصلہ کیا گیا ہے،ریاست سے جنگ کرنے والوں کے ساتھ جنگ کی جائیگی۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مختصر مدت میں قومی سلامتی پالیسی کی تیاری پر پوری وفاقی کابینہ نے چودھری نثار علی خان کو خراج تحسین پیش کیا۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں قومی سلامتی کی پالیسی کا مسودہ وزراء سے واپس لے لیا گیا تاکہ یہ پالیسی ان کی جانب سے اعلان سے قبل افشا نہ ہوجائے۔ ذرائع کے مطابق قومی سلامتی پالیسی کے تحت مربوط انٹیلی جنس نظام قائم کرنے کیلئے جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جائیگا۔ قومی سلامتی کی آرگنائزیشن کی تعداد 33ہے جس میں وفاقی اور صوبائی سطح پر پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز شامل ہیں۔ نیکٹا بل کی گزشتہ سال مارچ میں قومی اسمبلی نے منظوری دی۔ قومی سلامتی کی پالیسی کا مسودہ 86صفحات پر مشتمل ہے۔ پاکستان عراق کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنا ہے۔ امریکہ نے نائن الیون کے واقعہ کے 3سال بعد قومی سلامتی کی پالیسی بنائی ہے جب وفاقی وزارت داخلہ نے 8ماہ میں جامع پالیسی بنائی ہے۔ قومی سلامتی کی پالیسی 3پہلوئوں پر منقسم ہو گی جس میں سب سے زیادہ انٹیلی جنس نیٹ ورک پر دیا گیا ہے۔ پورے ملک میں سکیورٹی کیمرے لگائے جائیں گے۔ ریپڈ رسپانس فورس کے قیام سے عوام کی فوری مدد کی جائیگی۔