سلامتی پالیسی غیر واضح ہے‘ حکومت طالبان سے جنگ یا مذاکرات پر اعتماد میں لے: خورشید شاہ
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ خبر نگار خصوصی+ ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے وزیر داخلہ کی سلامتی پالیسی کو غیر واضح قرار دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات یا جنگ کے اقدام پر اپوزیشن اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے۔ اس حوالے سے ابہام دور ہونا چاہئے ملکی سالمیت اور بقا کیلئے حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں تحریک انصاف کا رکن تو شامل کر لیا گیا لیکن کسی اور جماعت کا نمائندہ مذاکراتی کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا۔ مذاکراتی کمیٹی کے اپنے اجلاسوں کی جو کارروائی منظر عام پرآئی وہ صرف اس کے بیانات ہی سامنے آتے رہے۔ وزیر اعظم نے اپوزیشن کو مذاکرات کی ناکامی پر اعتماد میں لینے کی زحمت گوارہ نہ کی اس بارے میں پارلیمانی لیڈرز کو ان کیمرہ بریفنگ دی جانی چاہیے انہوں نے حکومت کو یقین دلایا کہ ملکی مفاد کی خاطر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کئے بغیر حکومت کی حمایت اور تعاون جاری رکھیں گے اگر ملک میں کہیں بھی دہشت گردی کی کارروائی ہو تو اس کا بھرپور جواب دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے یہ بات بدھ کو وفاقی وزیر داخلہ کے ایوان میں خطاب کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے کہی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ مذاکرات اور فوجی آپریشن سے مزید کنفیوژن پیدا ہو ا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کی تقریر سے محسوس ہوتا ہے کہ ایوان نے حکومت کو حمایت کا یقین نہیں دلایا۔ مگر ایک بار پھر یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ملک کے مفاد کی خاطر بغیر کسی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے حکومت کی حمایت اور تعاون جاری رکھا جائے گا وفاقی وزیر داخلہ نے اپنی تقریر میں غلط تاثر دیا ہے۔ ہم نے طالبان سے مذاکرات کے معاملے پر حکومت کی حمایت کی ہے۔ حکومت کو اپوزیشن پر اعتماد کرنا چاہئے۔ ملک میں دہشت گردی آمریت کے فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کی داخلی پالیسی کے مسودے کی کاپیاں پرنٹ کرا کے ارکان کو فراہم کی جائیں گی جس کے بعد آئندہ ہفتہ اس پر مفصل بحث کرائی جائے گی۔ قانون و انصاف کمیشن پاکستان آرڈیننس 1979ء میں مزید ترمیم کرنے کے بل پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی جبکہ قومی اسمبلی نے فیڈرل کورٹ (تنسیخ) بل 2013ء کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی۔ علاوہ ازیں وزیر مملکت برائے پانی و بجلی چودھری عابد شیر علی نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ پنجاب کے تمام بجلی چور جیلوں میں قید کردئیے گئے ہیں بجلی چوروں کو پکڑنے کیلئے اپوزیشن ہماری مدد کرے بجلی چوروں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ سندھ کے کچھ علاقوں میں 100 فیصد بجلی چوری ہو رہی ہے۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران جمشید احمد دستی کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی نے بتایا کہ نیپرا کابینہ ڈویژن کے ماتحت ایک خود مختار ادارہ ہے یہ اپنے فنڈز خود پیدا کرتا ہے، یہ آئی پی پیز کو ادائیگیاں نہیں کرتا یہ کام این ٹی ڈی سی کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ 4 سے 6 گھنٹے ہے سندھ میں 74 کے قریب ایسے فیڈر ہیں جن میں بجلی چوری کی شرح بہت زیادہ ہے ان میں لاڑکانہ میں 15 فیڈر 90 فیصد لاسز پر چل رہے ہیں۔ ہماری حکومت چھ ہزار 600 میگا واٹ بجلی کا تحفہ دینے جارہی ہے۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ کالا باغ ڈیم منصوبے پر اب تک دو ارب 23 کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں، حکومتی فیصلے پر تعمیراتی کام کا آغاز کیا جائے گا۔ وقفہ سوالات کے دوران شفقت محمود کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے بتایا کہ جہاں پر بھی کسی جعلی دوائی کا علم ہوتا ہے وہاں پر کارروائی کرتے ہیں اس کو سیل کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس ہے۔ ہم یہ کام قاعدہ و قانون کے اندر رہ کر کرتے ہیں ہم اٹھارہ انٹرنیشنل کمپنیوں کیخلاف عدالتوں میں ہیں۔ قیمتوں میں اضافہ پر حکومت سپریم کورٹ گئی اس ملک میں مسائل کا حل حکم امتناعی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جان بچانے والی ادویات کی فہرست عالمی ادارہ صحت نے جاری کی ہے ایسی ادویات کو فورا رجسٹرڈ کر دیتے ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار کی قومی سلامتی پالیسی تقریر کے دوران بار بار مداخلت پر سپیکر نے جمشید دستی کو ڈانٹ پلا دی۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں بتایا کہ حکومت اسلام آباد میں بیرونی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تین سو گھر کرایہ پر لینے کے معاملے کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔ اسلام آباد کے گردونواح پونے دو لاکھ غیر رجسٹرڈ لوگ آباد ہیں، موجودہ حکومت نے اسلام آباد کے ہر گھر کے اندر رہائش پذیر افراد کی رجسٹریشن کی۔ مالکان اور کرایہ داروں کی تفصیلات حاصل کر لی ہیں۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا ہے کہ پی آئی اے میں ہوا بازوں کی جعلی اسناد کا معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے اس کی تحقیقات کر کے رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے گی۔ مولانا امیر زمان نے کہا ہے کہ تونسہ موسیٰ خیل ژوب لورالائی شاہراہ کو بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے این ایچ اے کو منتقل کیا جائے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) جمعرات کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔