• news

متحدہ کا مسلح افواج سے اظہار یکجہتی

 شہزاد چغتائی
دیرپا امن کیلئے ملک کی تاریخ میں پہلی بار انتہا پسندوں کے خلاف تمام سیاسی قوتیں اور مکاتب فکر ایک ہو گئے اور انہوں نے کراچی میں ایم کیو ایم کے زیراہتمام ہونے والی یکجہتی کانفرنس میں شرکت کر کے تشدد پسندوں کے خلاف فیصلہ دیدیا۔ ریلی کی انفرادیت یہ تھی اس میں دوسری سیاسی مذہبی جماعتوں‘ علماء کرام‘ صحافیوں‘ دانشوروں‘ عمائدین اور تاجروں نے بھی شرکت کی اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مسلح افواج‘ رینجرز‘ پولیس اور ایف سی سے اظہار یکجہتی کیا۔ پولیس اور رینجرز کی جانب سے شاہراہ قائدین پر ہونے والے اجتماع کا خیرمقدم کیا گیا۔ یکجہتی ریلی میں عوام سیاسی جماعتوں اور تمام مکاتب فکر نے شرکت کر کے نہ صرف جنگجوئوں کو سخت پیغام دیدیا بلکہ پوری قوم انتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے فوج کی پشت پر کھڑی ہوگئی یوں کراچی سے وزیرستان تک سیکورٹی فورسز کو آخری جنگ کیلئے گرین سگنل مل گیا۔ ایک وقت تھا جب انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی پر سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلاف رائے موجود تھا۔ چند سال پہلے تک اے این پی سمیت کئی روشن خیال جماعتیں بھی انتہا پسندوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑی تھیں اوران کی مخالفت کرنے والی جماعتوں سے لڑ پڑتی تھیں۔ایم کیو ایم کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے انتہاپسندی کے خلاف بہت بڑا اورتاریخی جلسہ کرنے میں پہل کی جس کے بعد فضا بن گئی اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی لوگ سڑکوں پر نکل آئے ایم کیو ایم کے قائد نے طالبان کو ملک کاغدار قرار دیا اور کہا کہ مسلح افواج قدم بڑھائے پوری قوم ساتھ ہے۔ایم کیو ایم کی ریلی میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار تھی ایک جانب تمام شرکاء پاکستان کاپرچم اٹھائے ہوئے تھے تو دوسری جانب شاہراہ قائدین کی تمام عمارتوں پر پاکستان کے بڑے پرچم آویزاں تھے خواتین بچوں اور مردوں نے چہروں پر بھی سبز پرچم پینٹ کرا رکھا تھا اسٹیج کی اسکرین اوربینروں پر مسلح افواج رینجرز اور ایف سی کی مدح سرائی میں نعرے درج تھے۔کئی بچے فوجی اور رینجرز کی وردی میں ملبوس تھے جلسہ کے آغاز سے قبل قومی نغمے بجائے جاتے رہے فوجی وردی میں ملبوس بچوں نے پریڈ بھی کی ریلی سے قبل فنکاروں نے مزار قائد سے شاہراہ قائدین تک فلیٹ مارچ کیا جس کا راستے میں کھڑے ہزاروں لوگوں نے خیرمقدم کیا اورہاتھ لہرا کر اور نعرے لگا کریکجہتی کا اظہار کیا۔جب الطاف حسین نے کہا کہ فوج قدم بڑھائے قوم ساتھ رہے گی تو سماں بندھ گیا۔ شرکاء نے تالیاں بجائیں نعرے لگائے اورزبردست جوش وخروش دیکھنے میں آیا۔ آج سے چند سال قبل کوئی طالبان کے خلاف بات سننے کیلئے تیار نہیں تھا اور طالبان کی مخالفت کرنے والوں کو غدار قرار دیا جاتا تھا لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے آج ملک میں یہ نعرے گونج رہے ہیں کہ طالبان کا جو یار ہے وہ موت کا حقدار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکورٹی فورسز کے گلے کاٹنے والوں سے کسی کو ہمدردی نہیں ۔ قوم مسلح افواج کے شانہ بشانہ ہے اور50ہزار جیتے جاگتے پاکستانیوں کو شہید کرنے والوں کو کیفر کردارتک پہنچاناچاہتی ہے۔منگل کو افواج پاکستان سے یکجہتی کیلئے سندھ اسمبلی نے بھی قرارداد منظور کر لی۔ صوبائی وزیر بلدیات شرجیل میمن نے طالبان کی حمایت کرنے والی جماعتوں پر پابندی کامطالبہ کر دیا اور کہاکہ طالبان لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے نہیں مانیں گے طالبان کے خلاف پہلے ملک کی تین سیاسی جماعتیں ایک تھیں اب تمام سیاسی جماعتیں ان سے آملی ہیں۔ ایم کیو ایم کے جلسہ عام کے موقع پر پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو نے بھی طالبان کے خلاف دمادم مست قلندر کا اعلان کردیا اورجلسہ عام کا خیرمقدم کیا بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستانی قوم بہادر ہے۔ طالبان کو شکست دے گی۔ ایم کیو ایم کی ریلی سے کچھ روز قبل پولیس نے بلاول بھٹو پر خودکش حملے کا منصوبہ ناکام بنادیا تھا اور 20کلو بارود سے بھری ہوئی گاڑی برآمد کر کے دو طالبان کو گرفتار کر لیا تھا۔ خود کش بم دھماکے کے منصوبے کا انکشاف ہونے پر بلاول بھٹو نے  واضح کیا تھا کہ وہ موت سے نہیں ڈرتے اور بہادروں کی طرح جئیں گے اوربھٹو کی طرح موت کو سینہ سے لگائیں گے۔  حالانکہ طالبان کی جانب سے دھمکی کے بعد شہریوں میں خوف وہراس پھیل گیا تھا، مگربلاول بھٹو نے طالبان کی جانب سے گاڑیوں میں موسیقی  بند کروانے کی دھمکی مسترد کر دی تھی، اورکہا تھا وہ اپنی گاڑی میں میوزک  بھی سنیں گے اور ایل سی ڈی بھی استعمال کریں گے۔   وزیراعلیٰ سندھ نے بلاول بھٹو کو بم سے ا ڑانے کے منصوبہ کو ناکام بنانے پر پولیس کو مبارکباد دی اورکہاکہ کراچی پولیس بہت چوکس ہے۔ بلاول بھٹو پر خودکش حملے کو ناکام بنانے کے ساتھ پولیس نے بارودی مواد سے بھری ہوئی 14گاڑیوں کا سراغ لگایا۔ یہ گاڑیاں مشرف کالونی کے ایک مکان میں تیار کی گئی تھیں۔ کچھ عرصے قبل لانڈھی میں بھی 20کلو بارود سے بھری ہوئی گاڑی پکڑی گئی تھی۔ ملزمان نے دو ماہ قبل اس  مکان پر قبضہ کرکے مکینوں کو نکال دیا تھا۔  اب جبکہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ  بھی شہر میں طالبان کی موجودگی کا اعتراف کر  چکے ہیں، وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے طالبان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وفاقی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی تھی حکومت سندھ طالبان کے خلاف کریک ڈائون کر رہی تھی۔ 90ء کی دہائی  کے طالبان جو اس وقت  ہیرو سمجھے جاتے تھے  2000ء میں   وہ افغانستان میں اپنے لئے  مثالی امن اورگڈ گورننس قائم کر کے توجہ کا مرکز بن گئے۔ 90ء کی دہائی میں جو لوگ ان کی پشت پر کھڑے تھے آج ان سے نالاں ہیں تو آنے والے دنوں میں ان کے درمیان ملاپ بھی ہوسکتا ہے۔ بعض حلقے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ طالبان کے درمیان اس قدر تقسیم ہے کہ ان کو کسی طور گروپ کی حیثیت سے قبول نہیں کیا جا سکتا وہ کل بھی ایک علامت اور تراشا ہوا بت تھے آج بھی کرائے کے فوجی ہیں۔ دو سال قبل ملک کی بعض سیاسی جماعتوں کے درمیان کراچی میں طالبان کے ووٹ بنک کیلئے کشمکش  جاری تھی جن میں جماعت اسلامی جمعیت علماء اسلام اور تحریک  انصاف  شامل تھیں جماعت اسلامی اورجے یو آئی کو انتخابات میں کراچی سے کوئی نشست نہیں ملی لیکن تحریک انصاف کو ووٹ اورنشستیں ضرور مل گئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کی جماعت کو جن علاقوں سے ووٹ ملے وہاں سے نشست نہ مل سکی، جہاں طالبان کا ووٹ بنک نہیں تھا وہاں سے نشستیں مل گئیں۔ 2013ء میں طالبان نے ملک کی تین سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اوراے این پی کو الیکشن سے آئوٹ کرنے کی دھمکیاں دی تھیں  ۔ ان کے جلسوں اور ریلیوں میں دھماکے کئے  گئے عزیز آباد سے دائود چورنگی تک ہونے والے ان دھماکوں میں درجنوں افراد ہلاک اورزخمی ہوئے اس دوران اے این پی اور ایم کیو ایم کے امیدواروں کو قتل کیاگیا۔ الیکشن کے دن بھی تشدد ہوا اور دھماکوں میں خواتین اور بچوں سمیت کئی افراد ہلاک  کئے گئے لیکن عوام نے ہمت نہ ہاری۔ دہشت گردی اورانتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے کراچی کے عوام جاگ چکے ہیں۔ پی ڈی پی سندھ کے صدر بشارت مرزا کی تجویز پر مسلم لیگ(ن) کراچی کے زیراہتمام سیاستدانوں نے مزار قائداعظم پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کریکجہتی کا اظہار کیا ہے ۔انہوں نے  اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بانی پاکستان کے رہنما ء اصولوں کے مطابق شہر کو امن کا گہوارہ بنائیں گے سیاسی رہنمائوں نے آگاہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف ان کے درمیان کوئی اختلاف یا جھگڑا نہیں اس موقع پر میزبان نہال ہاشمی کے علاوہ تاج حیدر خواجہ اظہار الحسن نثار شاہ ‘ شاہد غوری ‘ انجینئر زاہد ‘شاہ میر بشیر خان‘ خرم شیرزمان‘ محمد حسین محنتی ‘ضمیر عثمانی‘ حافظ احمد‘ ملک تاج‘ عتیق میر‘ اسلم خٹک ‘ غلام حیدر ڈولی نے بھی خطاب کیا۔

ای پیپر-دی نیشن