جھنگ میں پی پی 81 کا ضمنی الیکشن
احمد کمال نظامی
آج کل فیصل آباد ڈویژن کے حلقہ پی پی81 (ضلع جھنگ) میں ضمنی انتخابات کی مہم انتہائی زوروں پرہے۔ ایک طرف حکومتی جماعت کی طرف سے اس بات کی بھرپورکوشش کی جارہی ہے کہ گیارہ مئی 2013کومسلم لیگ ن کے حصے آنے والی پنجاب اسمبلی کی اس نشست کو 3مارچ کے ضمنی الیکشن میں بھی برقرار رکھاجاسکے ۔ اس کیلئے ضلع جھنگ کی انتظامیہ کو تحریک انصاف کے سونامی سے بچاؤ کی ہدایت کردی گئی ہے۔ ضمنی انتخابات میں وزیراعلیٰ میاں محمدشہبازشریف یا وزیراعظم میاں نوازشریف تو اپنے نامزد امیدواروں کی حمایت کیلئے کسی جلسہ یا انتخابی ریلی سے براہ راست تو خطاب نہیں کرسکتے۔ اب الیکشن کمیشن نے کسی صوبائی یا وفاقی وزیر کو بھی حکومتی امیدوار کی حمایت میں کسی جلسہ میں خطاب کرنے کی ممانعت کر رکھی ہے۔ لہٰذا حکومتی امیدواروں کیلئے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا متبادل اور کچھ نہیں تو ڈویژنل کمشنر اور ڈی سی او سے مدد لی جا سکتی ہے لیکن حکومت یہ بھی نہیں چاہتی کہ ضلعی انتظامیہ کھلے عام حکومتی امیدواروں کی انتخابی مہم چلائے اور الیکشن کے نتائج پراثر انداز ہو۔ گزشتہ سال اکتوبر میں فیصل آباد میں پی پی 72 کے ضمنی الیکشن میں حکومتی پارٹی کے امیدوار کی تحریک انصاف کے امیدوار کے ہاتھوں ہونیوالی شکست نے گیارہ مئی کے عام انتخابات کے نتائج پر بھی ‘ پارٹی کے مخالفوں کو بیان بازی کرنے کا موقع فراہم کردیاتھا لہٰذا خوشاب میں قومی وصوبائی اسمبلی کے ایک ایک حلقہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکومتی امیدواروں نے اس رعایت کا فائدہ بھی اٹھایا،اور کم ازکم قومی اسمبلی کی نشست تحریک انصاف کے ہاتھ لگنے سے بچالی تھی۔حلقہ پی پی 81 میں ان دونوں جماعتوں کیامیدوار اپنی اپنی کامیابی کیلئے بھرپور انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ حکومتی امیدوار محمدخان بلوچ کی خواہش پروزیراعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے اور قومی اسمبلی کے رکن حمزہ شہباز ہفتہ عشرہ پہلے اپنے امیدوار کی حمایت کیلئے ضلع جھنگ کا دورہ کرنے آئے تھے۔ باخبر ذرائع کاکہناہے کہ حکومتی امیدوار محمدخاں بلوچ نے بیگم عابد ہ حسین کیلئے مسلم لیگ ن میں ان کی واپسی کیلئے راہ ہموار کی ہے۔ میاں نوازشریف کے سابقہ دور حکومت میں وہ امریکہ میںپاکستان کی سفیر بھی رہ چکی ہیں ۔ 12اکتوبر 1999 کو حکومت کیخلاف جنرل پرویزمشرف کے شب خون کے نتیجے میں کچھ عرصہ وہ مسلم لیگ ق کا حصہ رہنے کے بعد انہوں نے بینظیر بھٹو کی خواہش پر پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئی تھیں۔ گیارہ مئی 2013کے الیکشن میں اپنے بیٹے سید عابد امام کی مسلم لیگی امیدوار کے ہاتھوں ہونے والی شکست کے بعد بیگم عابد ہ حسین کو غالباً یہ احساس ہوگیاتھا کہ بینظیر بھٹو کی ’’شہادت‘‘ کے بعد پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت‘ مرحومہ کی طرح ان کو اہمیت نہیں دیتی۔ لہٰذا انہوں نے بچوںکے سیاسی مستقبل کیلئے مسلم لیگ ن کے امیدوار محمدخان بلوچ کی حمایت کرنا ہی بہتر سمجھا ہے۔ اس طرح انہوں نے نہ صرف پیپلزپارٹی کو چھوڑکر نا صرف پی پی 81میں مسلم لیگ ن کے امیدوار محمدخان بلوچ کی حمایت کااعلان کردیابلکہ یہ کہہ دیا ہے کہ وہ بڑھاپاآجانے پر سیاست سے ریٹائر ہو رہی ہیں۔ البتہ ان کے بچے یعنی سید عابد امام اور سیدہ صغریٰ امام ان کی طرف سے آزاد ہیں کہ وہ جس پارٹی سے چاہیں سیاست کرسکتے ہیں۔ بیگم عابدہ حسین کی طرف سے پی پی 81سے حکومتی امیدوار محمدخاں بلوچ کی حمایت خاندان کی نئی نسل کیلئے مسلم لیگ ن سے رابطوں کا ہی ایک’’آغاز‘‘ ہے۔ اس حلقہ میں تحریک انصاف کے امیدوار تیمور بھٹی کو بھی ایک فعال امیدوار کی حیثیت حاصل ہے۔ انہیں تحریک انصاف کے گیارہ مئی2013کے امیدوار مہر نوید پاتوآنہ ایڈووکیٹ کی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ بیگم عابد ہ حسین کی طرف سے مسلم لیگ ن کے امیدوار محمدخاں کی حمایت کے بعد سابق وفاقی وزیر اور بیگم عابد ہ حسین کے ماضی کے حریف سید فیصل صالح حیات کی حمایت بھی انہیں حاصل ہوگئی ہے۔ پی پی 81کے انتخابی دنگل میں حکومتی امیدوار کو چت کرنا کبھی آسان نہیں ہوتا۔ خصوصاً جبکہ مقابلہ کسی ضمنی الیکشن میں ہورہاہو ۔تحریک انصاف کے طرف یہ اعلان کیاگیاتھا کہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان بھی اس حلقہ انتخاب کے رائے دہندگان سے خطاب کرنے آئیں گے لیکن عمران خان کے اچانک لندن کے دورہ پر چلے جانے کی وجہ سے اس حلقہ میں خطاب کرنے کیلئے تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی اور پنجاب اسمبلی کے لیڈر اپوزیشن میاں محمود الرشید کوذمہ داری سونپی گئی۔ ان دونوں سمیت تحریک انصاف کے بعض دوسرے رہنمائوں نے بھی24 فروری کوشاہ جیونہ میں اپنے امیدوار مہر نوید کی انتخابی مہم میں ایک بھرپور انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کے عوام کو اب اندازہ ہوجاناچاہئے کہ میاں نوازشریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم بن کر بھی اس ملک کومسائل کے بھنور سے نہیں نکال سکے۔ انہوں نے اپنی غلط اقتصادی پالیسیوں سے ملک کی اقتصادی صورتحال مکمل طورپر تباہ کردی ہے۔اور اس وقت ملک میں ہربڑا آدمی ملک اور قوم کو دونوں ہاتھوںسے لوٹنے کی کوشش میں ہے اور ہرچھوٹے کو اس کے حق سے محروم رکھا جارہاہے اور اقتدار کی باری لینے والے ان لیٹروں کو پوچھنے والا بھی کوئی نہیں۔عوام کو حکومتی امیدوار کو ووٹ دینے سے پہلے مسلم لیگ ن کی گیارہ ماہ کی کارکردگی کو دیکھ لینا چاہئے۔ عام انتخابات سے پہلے مہنگائی‘ بیروزگاری‘ لوڈ شیڈنگ اور ملک میں امن لانے کے نعرے لگانے والوں نے عوام کابھرکس نکال دیاہے۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ گزشتہ دور میں میاںنوازشریف صدر مملکت کے انتخاب کے موقع پر آصف زرداری کے مقابلے میں انہیں یاکسی دوسرے سیاسی کارکن کو اپنا امیدوار بنا دیتے تو اس وقت مسلم لیگ ق سینٹ میں سب سے بڑی ‘ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں تیسری بڑی سیاسی جماعت تھی۔ چوہدری شجاعت حسین بھی غیر مشروط طورپر زرداری کے مقابلے میں ان کی حمایت کرنے کیلئے تیار تھے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے سید فیصل صالح حیات کاشکریہ اداکیا کہ انہوں نے تحریک انصاف کے امیدوار کی کھل کرحمایت کرناشروع کردی ہے۔ اس جلسہ سے پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید اور سابق رکن پنجاب اسمبلی غلام محمد گاڈی نے بھی خطاب کیا۔ باور کیاجارہاہے کہ مخدوم فیصل صالح حیات اور جھنگ کی متعدد دوسری سیاسی شخصیات پی پی 81کے اس ضمنی الیکشن کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہوجائیں گے۔پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید لاہور سے جھنگ جاتے ہوئے فیصل آباد میں اپنے مختصر قیام کے دوران میڈیا کے افراد سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ حکمران پارٹی خود کو جمہوریت کی چیمپئن شو کرتی ہے لیکن صوبے میں بلدیاتی انتخابات کاالتواء الیکشن کمیشن اور پنجاب حکومت کی ساز ش کانتیجہ ہے۔ بلدیاتی انتخابات منعقد ہو جائیں تو مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی شکست سے پارٹی کی عوامی مقبولیت کا پردہ چاک ہوجائے گا۔میاں محمود الرشید نے حکومت پنجاب پر الیکشن کمیشن سے مل کر بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کاالزام بہت حد تک درست عائد کیاہے۔ حکومت کا موقف تھا کہ صوبے میں50کروڑ بیلٹ پیپرز کی اتنی چھپوائی ممکن نہیں اور یہ دلیل بھی دی گئی تھی کہ وہ پرائیویٹ چھاپہ خانوں سے بیلٹ پیپرز اس لئے نہیں چھپوانا چاہتے کہ اس سے راز داری متاثر ہوسکتی تھی ۔ لیکن اب اعلیٰ عدالتوں میں حکومت کی طرف سے نئی مردم شماری کے بغیر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو غلط قرار دیاجارہاہے۔ امر واقع یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں ہی ملکی پاور سٹرکچر اور اختیارات کی مرکزیت کے حق میں ہیں کہ اس طرح ان کے اسمبلیوں کے ارکان کو ترقیاتی کاموں کیلئے جاری ہونے والے اربوں روپے کے ٹھیکوں میں مل کر کرپشن کرنے کے مواقع مل سکے۔اس کی مثال فیصل آباد میں ڈیڑھ ارب روپے کے ترقیاتی کاموں کے فنڈز میں کرپشن کاسکینڈل سامنے آنے سے دی جاسکتی ہے۔ حکومتی پارٹی کاہی ایک رکن پنجاب اسمبلی‘ صوبائی کابینہ کے طاقت ور ترین رکن رانا ثناء اللہ کے متعلق وزیراعلیٰ میاں محمدشہبازشریف سے کہہ رہاہے کہ وزیر موصوف کرپشن کیخلاف بنائی گئی انکوائری کمیٹی پراثر انداز ہورہاہے۔ اسے انکوائری مکمل ہونے تک وزارت سے معطل کیاجائے۔ رکن پنجاب اسمبلی طاہر جمیل نے سینئر صوبائی وزیرراناثناء اللہ خاں کو فیصل آباد میں کرپشن مافیا کا ’’ڈان‘‘ قرار دیاہے اور ان کے خلاف انہیں پولیس کے ڈرانے دھمکانے پر پنجاب اسمبلی میں تحریک استحقاق لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگررانا ثناء اللہ خاں کا دامن کسی کرپشن سے آلودہ نہیں ہے تو انہوں نے ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے بلیک لسٹ ہونے والے بدنام زمانہ ٹھیکیدار کو کیوں دلوائے اور یہ ٹھیکے شفاف طریقے سے کیوں نہیں دیئے گئے۔