• news

سرکاری اخراجات میں کمی کی ضرورت

 عثمان اجمیری
کزشتہ سات دھائیوںمیں کئی حکومتیں بنیں ملک گیر سطح پر کبھی بھی عوام کو ریلیف دینے کے لئے کوئی پروگرام نہیں بنایا گیا۔ بینظیر بھٹو،  آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف بھی برسر  اقتدار  رہے ہیں اور اب بھی اقتدار میں ہیں اور عوام نے بھی ان کو  مینڈیٹ کے ذریعے مسند  اقتدار  بخشا مگرآج بھی برسر اقتدار حکومت عوام کیلئے  کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ قومیں اور ملک اس وقت ترقی کی راہ پر  گا مزن ہوتی ہیں جب خلوص کے ساتھ حکمران  لیڈر شپ  اور عوام مل کر کو شش کریں۔  چائنا ، کوریا ،جاپان اور دیگر ممالک کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے نظر آتی ہے کہ حکمرانوں نے  طویل المدت منصوبہ بندی کے زریعے عوام کو ریلیف دیا اور عوام نے بھی  ملک کی ترقی کے لیے عارضی طور پر اپنی آساشیں ختم کیں اور حب الوطنی کا مظا ہرہ کیا۔ جس کے نتیجے  میں  وہ قومیں آج ترقی یافتہ ممالک  کی صف میں شامل ہوگئیں ہیں ۔ مو جودہ وقت میں عوام مہنگائی کی چکی میں پستے جا رہے ہیں بے روز گا ری کی وجہ سے لوگ اپنے گھر کے چولہوں کو بھی برقرار نہیں  رکھ سکتے ہیں۔  جب کہ بچو ں کی تعلیم اور صحت کا معاملہ اپنی جگہ مو جود ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آئے دن اخبارات میں یہ خبریں متواتر  شائع ہوتی ہیں کہ لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اسکے علاہ چوری ، ڈکیتی  کی وار داتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔صنعتوں میں پیداوار کی کمی کا رجحان بھی بڑتا جا رہا ہے دوسری جانب  حکمرانو ں کا جا ئیزہ لیں تو ان کی عیاشیوں میں کوئی کمی نظر نہیں آتی اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ اس ملک میں دو (۲) فیصد طبقہ مزے کر رہے ہیں۔  سوال یہ پیدا  ہوتا ہے کہ حکومت  عوام کو ریلیف دینے کے لیے کون سے منصوبے بنا رہی ہے  اگر حکومت سنجیدیگی کے ساتھ یہ طے کر لے  کہ عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے اس کے لیے حکومت کو عملی اقدامات اٹھانے ہو نگے  اس کے لیے راقم کے ذہن میں چند تجاویز ہیں جو حکو مت کو پیش کر رہا ہوں  اس کے لیے غیر ضروری اخراجات کم کرنے ہونگے  ۔سرکا ری ملازمین کا جائزہ لیا جائے  تو ان کے غیر ضروری  اخراجات  حکومت ادا کرتی ہے مثال کے طور پر گریڈا(۱۲)اور (۲۲)  کے افسران کے گھروں پر پانچ پانچ دس دس قیمتی گاڑیا ں کھڑی رہتی ہیں جس کا کوئی جواز نہیں ہے اور ان سراری اور نجی گاڑیو ں کا استعمال  اعلیٰ افسر کے گھر وں میں   قریبی  عزیزوں،دو ست احباب  میں یوں کیا جاتا ہے جیسے مال مفت دل بے رحم کی صورت حال ہو۔  اس تمام ٹرانسپورٹ کے پیٹرول اور دیگر اخراجات  حکومت ادا کرتی ہے  اسی طرح  گریڈ (۰۲)سے (۷۱) تک کے ملازمین کے ہاں بھی یہ ہی صورت حال نظر آتی ہے۔ ان اخراجات کو کم کرنے کے لیے تجویز  ہے  کہ صرف گریڈ ۱۲ اور ۲۲ کے افسران کو  ایک گاڑی دی جائے  جب کہ گریڈ ۹۱ سے لیکر ۷۱ تک کے ملازمین کے لیے سرکاری  بس چلائی جائے جو  ان کو گھرہوں کے قریب بنے پک اپ پوانٹ  سے لیکر دفتر جائے  اور واپس بھی گھر لے کر جائیں  ان کے گھرہوں اور دفاتر میں لاتعداد ایرکنڈیشن اور دیگر مراعاتیں  دی گئی ہیں۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ان عیاشیوں  کو ختم کیا جائے ہمیں سادگی  اختیار کرنی چاہیے یہ کہا ںکا انصاف ہے کہ اس  ملک کی ۸۹ فیصد آبادی  بھوک اور افلاس سے دو چار ہے بنیادی سہو لتیں سے محروم ہیں  دو فیصد لوگ مزے کر رہے ہیں۔ تجویز ہے  ایوان صدراور وزیر اعظم ہاوس  بند کر دیے جائیں جن پر اربوںروپے کے اخراجات آتے ہیں صرف ایک گیسٹ ہاوس ہونا چاہیے جہاں پر غیر ملکی سربران  اور مہمانوں سے  ملا قاتیں کی جائیں  اور ان کے قیام کے لیے بھی  کمرے ہونے چاہیے اسی طرح  وزرا کے دفاتروں اور گھروں میں  جو مراعات دی گئی ہیں وہ بند ہونی چائیے بلکہ وزرا کو اپنے گھروں میں رہنے کا پابند بنایا جائے ۔وزرا کے پا س بھی صرف ایک چھوٹی گاڑی ہونی چاہیئے  بڑی اور قیمتی  گاڑیوں کو دینے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے  چاروں صوبے کے وزیراعلیٰ کی رہائش گاہوں کو بھی بند کیا جائے۔  صرف صوبے میں ایک گیسٹ ہاؤس ہونا چائیے  ملک میں بڑی  بڑی  گاریوں کو امپورٹ کرنے کے لیے زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے اس کو روکا جائے اگر آپ ہمارے پڑوسی ملک کو دیکھیں جہاں پر  وہ اپنے ملک کی بنائی ہوئی گاڑیو ں کو استعمال کرتے ہیںملک میں جو بڑے بڑے یوٹلیٹی اسٹور قائم ہیں ان سے غریب عوام کو کوئی فاعدہ نہیں ہوتا ہے جب وہ لائن میں لگ کر آگے جاتا ہے تو اس کو یہ کہہ  دیاجاتا ہے کے مال ختم ہو گیا ہے جبکہ ان اسٹوروں سے اعلیٰ سرکاری افسران پولیس کے افسران اور صحافی فائدا حا صل کرتے ہیں۔  مارکیٹوں میں  یہی اشیاء افسران کی ملی بھگت سے بلیک میں فروخت کر دی جاتی ہیں۔ تجویز ہے کہ ملک کے تمام یوٹلیٹی اسٹوروں کو بند کر دیا جائے اور اس کی جگہ یونین کونسل کی سطح پر یہ اسٹور قائم کیے جائیں مثال کے طور پر  یونین کونسل نمبر ۱۱ میں قائم ہونے والا یو ٹلیٹی  اسٹور  سے صرف اور صرف   یونین کونسل نمبر ۱۱ کا  ہی رہا یشی سامان لے سکے۔  اس طریقے کار سے اس علاقے میں رہنے والے غریب لوگ بھی مستفید ہوسکیں گے ۔ اس علاقے کے رہاشی کی تصدیق اس کے  شناختی کارڈ کے ب فارم سے ہو سکتی ہے جس میں رہایشی کے گھر میں رہنے والوں کے تعداد بھی موجود ہوتی ہے۔ وہ آسانی کے ساتھ ایک طے شدہ فارمولے کے تحت اپنا ۱یک ماہ کا راشن لے سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت عوام کو کس طرح ریلیف دے ان اقدامات سے حکومت کو غیر ضروری اخراجات سے اربوں روپے کی بچت ہو گی۔ عوام کو یو ٹیلٹی اسٹور سے دس روپے  کلوہ آٹا ،دس روپے گھی اور بیس روپے میں شکر فرائم کی جائے ۔ اس طرح  جو خسارہ حکومتی سبسڈی  کی صورت میںاربوں روپوں کی بچت ہو گی وہ اس سے پورا کریں جناب وزیراعظم  میاں نواز شریف جو تجاویز دی ہیں ۔ گولی کٹروی تو ہے مگر حکمران حقیقت میںعوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں تو اس کٹروی گولی کو نگلنا ہو گا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم  نواز شریف   ان مجوزہ  اقدامات پر عمل سے ملک کی تاریخ کا ایک حصہ بن جائینگے اور  عوام  مدتوں  انہیں   یاد رکھیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن