نیا گورنر ہائوس لاہور اور قرض حسنہ
نیا پاکستان تو کوئی بھی نہ بنا سکا۔ نیا خیبر پختونخوا، نیا سندھ، نیا بلوچستان اور نیا پنجاب بھی نہ بن سکا مگر چودھری سرور کے گورنر پنجاب بننے پر نیا گورنر ہائوس ضرور بننے لگا ہے۔ شاید اس لئے کہ چودھری سرور گورنر لگتے ہی نہیں ورنہ اکثر سیاستدان گورنر لگنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ وہ گورنر نہیں بنے یا انہیں بننے ہی نہیں دیا جاتا۔ میں تو اسے وزیر سمجھوں گا جو وزیر لگے ہی نہیں۔ وہ لاکھ کوشش کریں مگر صرف وزیر شذیر لگتے ہیں۔ ایک آدمی ہے اور وہ دوست ہے اسے دوست کہا جا سکتا ہے۔ پرویز رشید وزیر نہیں ہے مگر وزیر اطلاعات ضرور ہے۔ اسے ملیں تو وہ وزیر نہیں لگتا۔ اس کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ وزیر ہے۔ شیخ رشید بھی تقریباً مستقل وزیر اطلاعات تھے۔ وہ وزیر بنتے بھی تھے اور لگتے بھی تھے۔ آج کل کہتے ہیں کہ ’’میڈیائی زمانہ‘‘ اچھا ہے۔ پہلے میڈیا ان کے آگے آگے اب پیچھے پیچھے ہوتا ہے۔ بہرحال پرویز رشید شیخ رشید سے مختلف آدمی ہے۔
گورنر ہائوس پنجاب کا دروازہ تصویروں سے بھرا ہوتا تھا۔ پیپلز پارٹی کے زمانے میں کم و بیش 19 سے زیادہ تصویریں تھیں مگر میں نے محسوس کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر نہیں تھی۔ بینظیر بھٹو کو بھٹو صاحب پر ترجیح دی گئی۔ وہ شہید ہوئیں مگر بھٹو صاحب بھی تو پھانسی چڑھے تھے۔ مجھے پھانسی پانے والے زیادہ بڑے اور سچے لوگ لگتے ہیں۔
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
سوئے دار جانے کی جرات اسی میں ہوتی ہے جو کوئے یار سے نکلتا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری بڑا ڈونگھا آدمی ہے۔ ڈونگھا ہونا اور گہرا ہونا دو مختلف صفات ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری کی ’’کامیاب‘‘ سیاست کے لئے صدر ہونا ضروری تھا۔ اس نے ان سیاستدانوں کو شکست دی جو حکمران بننا چاہتے ہیں۔ نواز شریف کے علاوہ عمران خان بھی ان میں شامل ہے۔ نواز شریف کی انتخابی جیت اور تیسری بار وزیراعظم بننا بھی ’’صدر‘‘ زرداری کی پلاننگ کا حصہ تھا۔ اب اس کا احساس نواز شریف کو بھی ہو رہا ہے۔ اگلی باری زرداری کی۔ باریوں کا تسلسل قائم رکھنا اس طرز حکومت کے لئے لازمی ہے۔
چودھری سرور کے زمانے میں گورنر ہائوس کے دروازے پر کوئی تصویر نظر نہیں آتی اور کمال یہ ہے کہ شریف برادران نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔ سلمان تاثیر نے گورنر ہائوس کو ڈیرہ بنایا۔ چودھری سرور نے اسے ادبی ڈیرہ اور فلاحی مرکز بنا لیا۔ البتہ یہ الحمرا کے ’’ادبی دفتر‘‘ سے مختلف ہے۔ پے در پے کئی ادبی محفلیں ہوئیں۔ لاہور میں پنجابی انسٹی ٹیوٹ ایک ادبی مرکز بن رہا ہے وہ بھی اس لئے کہ وہاں ڈائریکٹر شاعرہ ادیبہ ڈاکٹر صغرا صدف ہیں۔ وہ بھی ڈائریکٹر نہیں لگتیں ہر شخص کے لئے دوستی کا کوئی نہ کوئی رنگ اس کے پاس ہے۔ ایک مانوس اور غیر منصوعی رنگا رنگی گورنر ہائوس اور پنجابی کمپلیکس میں نظر آ رہی ہے۔
قرضے کی افادیت اور اہمیت کا کامیاب آغاز کرنے والے ڈاکٹر امجد ثاقب کے سفرنامے کے لئے تقریب ہوئی ڈاکٹر صاحب باکمال اور بے مثال آدمی ہیں۔ انہوں نے بیوروکریسی کی افسرانہ عیاشی کو چھوڑ دیا اور وہ کام شروع کیا جس میں اسے بے شمار عزت اور محبت ملی۔ مریم نواز نے جب قرضے کی سیاست کا آغاز کیا تو میں نے اچھے دل و دماغ والی بی بی کو مشورہ دیا تھا کہ ماروی میمن اور اسحاق ڈار کی بجائے امجد ثاقب سے رابطہ کرو۔ اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ مریم نے امجد ثاقب کو اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے شکریہ اور مبارک۔ فرحت عباس شاہ سے بھی مشورہ کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کی بیٹی روشان ظفر بھی بہت تجربہ رکھتی ہیں۔
قرض حسنہ کے لئے ڈاکٹر امجد ثاقب ضرور مریم کی مدد کریں گے۔ قرض حسنہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب قرض واپس مانگا جائے تو مقروض ہنسنا شروع کر دے۔ قرض حسنہ کے لئے ہنسی کو پازیٹو بنایا جا سکتا ہے۔ میں جب گورنمنٹ کالج لاہور کے بعد پنجاب یونیورسٹی اورنٹیئل کالج میں آیا تو کئی ’’ایم ایز‘‘ میں داخلہ لیا اور امتحان نہ دیا۔ ہمارے ساتھ پڑھنے والی ایک بہت محترم اور اچھی لڑکی نے میرے داخلے کے پیسے میرے ایک دوست کو دئیے کہ اجمل نیازی کو امتحان دینا پڑے گا مگر دوست نے مجھے بچا لیا کہ پیسے اس نے خود خرچ کر دئیے۔ میں بعد میں اس بہت بڑی اور سچی خاتون سے ملا اور کہا کہ میں تمہارے پیسے واپس کر سکتا ہوں مگر میں تمہارا مقروض رہنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا کہ تم مجھے کروڑوں روپے بھی دے دو تو اس جملے سے بڑھ کر نہ ہوں گے۔ خدا کی قسم میں اس کا اور بھی مقروض ہو گیا ہوں۔ میں نے ڈاکٹر امجد ثاقب کے لئے کہا تھا کہ میں نے اس سے قرضہ نہیں لیا مگر اس کا مقروض ہوں۔ مریم بھی جب بے بس اور بے وارث لڑکیوں کو قرضہ دے گی تو میں اس کا بھی مقروض ہو جائوں گا۔
چودھری سرور گورنر ہائوس میں ادبی محفلوں کے لئے صدارتی تقریر کرتے ہیں تو مزا آ جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہال میں سٹیج کے پیچھے قائداعظم کے علاوہ صدر ممنون حسین کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ وہ شریف برادران کے لئے قدر و منزلت رکھتے ہیں مگر پروٹوکول کے جینوئن انداز سے واقف ہیں اس کے لئے جرات اور سلیقہ چاہئے۔
جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف نے مختلف جگہوں پر جو لوگ لگائے ہیں ان میں صرف ایک کام جینوئن سچا دانائی والا ہے اور وہ چودھری سرور کو گورنر پنجاب لگانے والا ہے۔ دانائی اور دلیری مل جائے تو سچی سیاست ہوتی ہے۔ دوسرے کئی لوگوں کے لئے عدالتیں وہی سلوک نواز شریف حکومت کے ساتھ کر رہی ہیں جو زرداری حکومت کے لئے کرتی تھیں۔ عدالت کے ساتھ کشمکش کا ایک ثبوت نجم سیٹھی کی پاکستان کرکٹ بورڈ میں دوبارہ تقرری ہے۔ تیسری بار یہ تقرری زیادہ اہم اور سیاسی ہو گی کہ نجم سیٹھی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا ’’وزیراعظم‘‘ لگا دیا جائے تاکہ عدالت کوئی قانونی کارروائی نہ کر سکے کہ اس سے ’’غیر جمہوری‘‘ ہونے کا احتمال پیدا ہو جائے گا کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا آئین توڑنے کا الزام بھی سامنے آ رہا ہے۔ نجم سیٹھی کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ کا سویلین چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ مناسب اور جمہوری ہو گا۔
چودھری سرور ایک انقلابی کام کر رہے ہیں۔ وہ پنجاب کے سکولوں اور دوسرے کئی شعبوں میں پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لئے بہت بے قرار ہیں۔ جہاں پینے کے صاف پانی کے فلٹریشن پلانٹ لگے ہوئے ہیں وہ بھی ناکارہ اور نمبر دو ہیں۔ خود گورنر ہائوس میں یہ پلانٹ بیکار ہیں۔ سرکاری کرپشن کی آلودگی دور کرنے کے لئے بھی کوئی پلانٹ لگانے کی ضرورت ہے اور یہ پلانٹ دنوں کے اندر لگانا پڑیں گے یہ کام بھی چودھری سرور کر گزریں گے۔