• news

اوگرا عملدرآمد کیس: چیئرمین نیب ہو یا کوئی تھانیدار‘ کام نہیں کریگا تو عدالت مداخلت کریگی: سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں اوگرا عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ عدالت نے 25 نومبر 2011ء کو اوگرا عملدرآمد کیس کا فیصلہ دیا تھا، دو سال چار مہینے گزرنے کے باوجود ابھی تک پیشرفت نہیں ہوئی، بادی النظر میں تحقیقات شفاف انداز میں نہیں ہو رہی، چیئرمین نیب ہو یا کوئی تھانے دار اگر کام نہیں کرے گا تو عدالت مداخلت کریگی، نیب کہہ رہا ہے کہ اس کا جو دل چاہے کرتا رہے اور عدالت مداخلت نہ کرے، کیا عدالت نیب کو اتنا کہہ سکتی ہے کہ مہربانی کر کے تحقیقات تیز کرے؟ کیا عدالت اتنی بے بس ہے؟ جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے دوہرا معیار اختیار کر رکھا ہے، جو عدالتی احکامات پر عمل کرتا ہے اسے پکڑ اور حکم عدولی کرنے والے اصل ملزمان کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ’’پک اینڈ چوز‘‘ نہیں چلے گا، اس سے انصاف نہیں ملتا۔ جٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 45 دن میں نیب سے رپورٹ طلب کی تھی مگر آج تک رپورٹ پیش نہیں کی جا سکی، 45 دن میں تو آئی او تک تعینات نہیں کیا جا سکا۔ ایسے معاملات میں تو گھنٹوں میں کام ہونا چاہئے جس پر نیب کے پراسیکیوٹر کے کے آغا  نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے اپنے قوانین کے مطابق کام کرنا ہے اگر عدالت آرڈر میں رپورٹ کا کہتی ہے تو پھر بھی نیب اپنے آرڈیننس کے تحت کارروائی کرتی ہے۔ نیب اپنے آرڈیننس کے تحت تحقیقات میں آزاد ہے۔ عدالت تحقیقات کیلئے نیب کو محدود وقت دینے کی مجاز نہیں، مقدمات بند کرنے اور چلانے کا اختیار چیئرمین نیب کا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا ہمارا اختیار نہیں تو کیا فائلیں بند کر دی جائیں، صاف نظر آ رہا ہے نیب ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔ بعدازاں عدالت نے اوگرا عملدرآمدی بارے مقدمے کے آغاز کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔ 

ای پیپر-دی نیشن